شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 64

شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط ...
شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 64

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت خواجہ محمد فضیل وحیؒ
آپ کابل کے رہنے والے تھے اور شاہجہان آباد میں آ کر سرکاری ملازمت اختیار کر لی تھی۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے اس عہد کے مشہور بزرگ حضرت شاہ نعمت اللہ خدانما نقشبندیؒ سے بیعت کر لی اور مرشد نے آپ کو خرقہ خلافت بھی عطا کیا تھا۔ سعید خان ناظم صوبہ کابل کے ساتھ آپ کا گزر موضع نوشہرہ کے قریب سے ہوا۔ آپ کے ہمراہیوں سے کسی نے خواجہ فضیل کو بتایا کہ اس بستی میں ایک بزرگ سکونت پذیر ہیں۔ خواجہ صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ایک نظر میں نیم بسمل ہو گئے۔ آپ ’’وحی‘‘ کے لقب سے اس لئے مشہور ہیں کہ اگر مردے پر نظر کرم کرتے تو وہ زندہ ہو جاتا اور اگر زندہ پر نظر غضب کرتے تو وہ مر جاتا تھا۔

شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک روز چند دہقانوں نے امتحان کے طور پر ایک زندہ شخص کو چارپائی پر ڈال کر یہ ظاہر کیا کہ یہ مردہ ہے اورا س کے جنازہ کو اٹھا کر آپ کے سامنے سے گزرے۔ حضرت خواجہ محمد فضیل ولی رحمتہ اللہ علیہ جنازے میں شریک ہونے کے لئے ان کے ساتھ چل پڑے جب جنازگاہ میں پہنچے تو انہوں نے خواجہ صاحب کو نماز جنازہ پڑھانے کیلئے کہا۔ آپ نے مصلٰی امامت پر کھڑے ہو کر دو تین بار نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت طلب کی۔ جب دہقانوں نے اجازت دی تو آپ نے نماز جنازہ پڑھا دی۔ دہقانوں کا منصوبہ یہ تھا کہ دوران نماز وہ آدمی اٹھ کھڑا ہو گا۔ جب ایسا نہ ہوا تو وہ فکر مند ہو گئے اور چارپائی کے پاس جا کر اس کو دیکھا تو وہ قدرت الہٰی سے مر چکا تھا۔ دہقان آپ کے قدموں پر گر پڑے اور اس کی زندگی کیلئے دعا کی منت سماعت کی مگر آپ راضی نہ ہوئے۔ آپ کا مزار پاک بنی حصار کابل میں ہے۔ آپ نے 1076ھ میں انتقال فرمایا۔

شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 65پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

حضرت شاہ فتح دیوان نوشاہی نور اللہ مرقدہ
آپ کی تربیت حضرت سید ہاشم شاہ دریا دل قدس سرہ نے کی تھی۔ گکھڑ خاندان کے اکثر افراد آپ کے مرید تھے۔ جانور اور حیوانات بھی آپ کے زیر فرمان تھے۔ آپ نے 1119ھ میں انتقال فرمایا۔ مزار مبارک ساگری متصل دینہ ضلع جہلم میں ہے۔
حضرت قاضی القضاۃ علامہ خوشی محمد کنجاہیؒ
آپ کنجاہ کے ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ منصب قضا موروثی تھا۔ گجرات اور سیالکوٹ کے قاضی تھے۔ حج کی سعادت سے بھی مشرف ہوئے۔ آپ فارسی، ہندی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ حضرت مجدد اعظم قدس سرہ کے خلفاء میں آپ کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ آپ کو حضرت مجدد اعظم قدس سرہ کی بارگاہ میں حالت جلالیت میں بھی گزارشات پیش کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ مزار اقدس کنجاہ ضلع گجرات میں ہے۔
آفتاب پنجاب حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی نوشاہیؒ
علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی نوشاہی جب حضرت مجدد اعظم کے کمالات سے آگاہ ہوئے تو آپ کے صاحبزادے حضرت سید محمد ہاشم شاہ دریا دل نور اللہ مرقدہ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان دنوں صاحبزادہ صاحب نے آفتاب پنجاب سے تحصیل علوم دینیہ کی تکمیل کی تھی۔ آپ نے جواب دیا کہ جب تک میں والد ماجد سے دریافت نہ کر لوں اس وقت تک وہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ صاحبزادہ صاحب نے ذریعہ خط خدمت اقدس میں حاضری کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں تحریر فرمایا۔
’’ان (علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی نوشاہی) کا آنا باعث شہرت ہے۔ تم ان سے فارغ التحصیل ہوئے ہو، ان کا حق ہم پر ہے، اس لئے میں خود آؤں گا‘‘ چنانچہ آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے اور تین دن وہاں قیام پذیر رہے۔ آفتاب پنجاب علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی نے حاضر ہو کر مجلس کی اور عرض کیا کہ مجھ پر بھی نظر کرم کی جائے۔ چنانچہ آپ کی توجہ سے انہوں نے فیض باطنی حاصل کیا۔
حضرت پیر محمد کمال لاہوری تحائف قدسیہ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی نوشاہیؒ حضرت مجدد اعظمؒ کی خدمت میں ملاقات کیلئے تشریف لائے تو یاران حضرت مجدد اعظم قدس سرہ سے بہت متاثر ہوئے۔ آپ کی خدمت اقدس میں عرض کی ۔
’’ حضرت کیا وجہ ہے کہ میں انتہائی محنت سے طلبا کو تعلیم دیتا ہوں لیکن تحصیل علوم کے بعد وہ ناآشنا ہو جاتے ہیں؟ ادھر آپ ہیں کہ جو خدمت میں حاضری دیتا ہے وہ آپ کی غلامی میں زندگی بسر کرنا پسند کرتا ہے؟ ‘‘
آپ نے فرمایا ’’ہماری اور آپ کی تعلیم میں فرق ہے۔ ہم اللہ تعالٰی کی ذات کے سوا ہر چیز کی نفی سے تعلیم شروع کرتے ہیں اور آپ ’’میں اور ہم‘‘ سے شروع کرتے ہیں‘‘(جاری ہے)