حرمین شریفین کی یادیں،الطاف حسن قریشی  کی خوبصورت کتاب”قافلے دِل کے“

حرمین شریفین کی یادیں،الطاف حسن قریشی  کی خوبصورت کتاب”قافلے دِل کے“
حرمین شریفین کی یادیں،الطاف حسن قریشی  کی خوبصورت کتاب”قافلے دِل کے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور بھائی عبدالستار عاصم بہت سے سینئر صحافی حضرات کے محسن کے طور پر سامنے آئے ہیں جب سے انہوں نے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے نام سے بطور پبلشر ادارہ قائم کیا ہے، ہمارے دانشور حضرات اور کالم نویس حضرات کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں پیدا کر دی ہیں، بہت سے احباب کو جانتا ہوں جن کی مصروفیت ایسی ہے اگر وہ چاہتے بھی تو شاید اپنے کالموں کو کتاب کی شکل میں منظر عام پر نہ لا پاتے اللہ بھلا کرے عبدالستار عاصم اور ان کے ادارے قلم فاؤنڈیشن کا جس نے بڑے بڑے کالم نویسوں کو مصنف کے طور پر متعارف کرانے کا اعزاز حاصل کیا، ہمارے محترم استاد الاستاد الطاف حسن قریشی کے ساتھ جوڑی ہوئی یادوں کو تازہ کرنے کا کریڈٹ بھی اُنہی کو جاتا ہے۔فروری میں ایک دن اُن کا فون آیا سلام دُعا کے بعد فرمانے لگے: الطاف حسن قریشی سلام کہہ رہے ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں میرے لئے یہ سعادت سے کم نہیں تھا، کیونکہ زمانہ طالب علمی سے ہی ان کی تحریروں کے گرویدہ ہونے کی وجہ سے ان سے ملنا اور بات کرنا میرے لئے اعزاز سے کم نہیں تھا۔ محترم الطاف حسن قریشی صاحب سے بات کرنے کے لئے فون کانوں سے لگایا، محسور کن خوشی کا احساس ہوا اور پنجاب یونیورسٹی دور سے1997ء سے زندگی، قومی ڈائجسٹ سے جڑے ہوئے لمحات یاد آتے گئے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ 50لوئر مال کے دفتر سے نئے نئے وابستہ ہوئے تھے اور پھر ہفتے مہینوں میں اور سالوں میں بیتتے چلے گئے۔ کئی سال تک الطاف حسن قریشی صاحب کے ”اردو ڈائجسٹ“ کا ابتدائیہ اور تجزیے پڑھنے کا موقع ملتا رہا ان کی دور اندیشی، ان کی خوبصورت الفاظی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ سمن آباد ”اردو ڈائجسٹ“ سے رابطہ بھی ”قومی ڈائجسٹ“ اور ہفت روزہ ”زندگی“ میں ہونے کی وجہ سے کئی سال تک قائم رہا، کیونکہ ہمارا بائنڈر ایک تھا۔ انہی یادوں میں محو تھا کہ الطاف صاحب سے فون عبدالستار عاصم صاحب نے لیا اور فرمانے لگے: ”الطاف صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں، ساتھ ہی فرمانے لگے آپ کو پتہ ہے الطاف حسن قریشی صاحب نے حرمین شریفین کی یادیں تازہ کی ہیں۔ حجازِ مقدس کا سفر نامہ ”قافلے دِل کے چلے“ کے نام سے کتاب آ گئی ہے میرے لئے حرمین شریفین ہی سب کچھ  ہے میری زندگی کا بیشتر حصہ اسی سے جڑا  ہوا ہے اس لئے میرے لئے بڑی خوشخبری تھی اللہ بھلا کرے دو دن بعد ہی ڈاک کے ذریعے الطاف حسن قریشی کا سفرنامہ جو ”قافلے دِل کے چلے“ کے نام سے تھا کتاب میرے ہاتھ میں تھی، خوبصورت ٹائٹل اور اس کے اوپر خانہ کعبہ کی دِل موہ لینے والی تصاویر نے دِل خوش کر دیا۔ ٹائٹل سے پتہ چلا کہ یہ کتاب ایقان حسن قریشی  صاحب نے مرتب کی ہے جب صفحہ پلٹا تو اندازہ ہوا جناب مجیب الرحمن شامی،جناب عطاء الحق قاسمی صاحب، جناب اوریا جان مقبول اور سجاد میر کی طرف سے الطاف حسن قریشی کو خوبصورت الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا میرے لئے سب احباب قابل ِ فخر ہی نہیں قابل ِ قدر شخصیات ہیں۔ ورک پلٹ رہا تھا تو عبدالستار عاصم ایک دفعہ پھر پرنٹر کی صورت میں سامنے آ گئے مجھے عبدالستار عاصم صاحب سے گزشتہ دور میں کیا گیا گلہ بھی سامنے آ گیا، جب میں نے انہیں بتایا 15سال سے میری کتاب جو میرے کالموں کا مسودہ تیار ہے محترم شامی صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیباچہ بھی لگا ہوا ہے عبدالستار فرمانے لگے فوری ہمارے دفتر کو فراہم کریں اس کے بعد میری نام نہاد مصروفیت اور سستی، آج تک دفتر جسارت میں محترم شاہد صاحب کے پاس پڑھا ہوا مسودہ کئی سال بعد بھی نہیں اُٹھا سکا ہوں۔بات دوسری صرف نکل گئی۔ صفحہ دو پر محترم شامی صاحب کی طرف سے الطاف حسن قریشی صاحب کے لئے لکھی گئی تحریر پڑھنا شروع کی، جس میں شامی صاحب فرماتے ہیں الطاف حسن قریشی کو بار بار حج و عمرے کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ حرمین شریفین کا پہلا سفر 1967ء میں کیا۔اس کے بعد تو دِل کا قافلہ چلتا چلا گیا۔ شاہ فیصل سے ملاقات،اُن کا انٹرویو، سعودی عرب کے اُن گوشوں میں جھانکنے کا اتفاق ہوا جہاں آنکھیں کم ہی پہنچ پاتی ہیں۔ اِسی  طرح عطاء  الحق قاسمی فرماتے ہیں:قافلے دِل کے چلے کا سفرِ عشق بہت ذوق شوق سے لکھا گیا ہے بہت دیر بعد نہایت خوبصورت اور منفرد اندازِ بیاں کا حامل سفر نامہ حج اور بہت سی قیمتیں باتیں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ اوریا جان مقبول فرماتے ہیں:میں نے الطاف حسن قریشی صاحب کو زندگی کے ابتدائی دِنوں سے ہی پڑھنا شروع کیا تھا جو کیفیت اور لطف مجھے اُن کی پہلی تحریر پڑھنے میں آیا تھا آج بھی وہی تاثر برقرار ہے۔جناب سجاد میر فرماتے ہیں: الطاف حسن قریشی بڑے خوش نصیب ہیں اُنہیں زندگی میں اب تک چھ بار حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے، کبھی خادم حرمین شریفین کی دعوت پر اور کبھی صدرِ پاکستان اور وزیراعظم کی معیت اور کبھی انجانے واقعات کی رواداری میں قافلے دِل کے چلے ہیں۔الطاف صاحب نے صرف دو حج کی رو داد بیان کی ہے، ہر بار کا سفر روحانی تفصیلات کے ساتھ حیرت انگیر واقعات سے مزین ہے۔ یہ تو ہمارے بزرگوں کا خراجِ تحسین تھا،جو انہوں نے قافلے دِل کے چلے کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔الطاف حسین قرشی عام لکھاری نہیں ہیں انتہائی منجھے ہوئے خوبصورت تحریروں کے حامل دانشور، کالم نویس اور ایڈیٹر ہیں موجود دور میں وہ اہل ِ صحافت کے لئے انمول تحفہ ہیں۔ پہلے سفرِ حج کی تفصیلات لکھتے ہوئے فرماتے ہیں 1976ء کو مارچ کے ابتدائی دِنوں کی بات ہے ایک روز نو بجے دفتر پہنچا، دو نوجوانوں کو اپنا منتظر پایا۔ معلوم ہوا دونوں طالب علم ہیں اور میری صدارت یں جلسہ کروانا چاہتے ہیں میں نے ان سے صاف صاف کہہ دیا ایڈیٹر کو صدر نہیں بننا چاہئے لیکن ان کی حکمت عملی کے ہاتھوں میری صاف گوئی مات کھا گئی مجھے ایک کی بجائے دو جلسوں کی صدارت کرنا پڑ گئی، طلبہ کی تقریبات سے فارغ ہو کر دفتر پہنچا ابھی فیصلہ کر رہا تھا کالم لکھوں اچانک فون کی گھنٹی بج گئی، فرمایا گیا الطاف قرشی صاحب موجود ہیں بول رہا ہوں، میں نے قدرے اُکتاہٹ سے کہا آپ سے سعودی عرب سفارتخانے کے فسٹ سیکرٹری بات کرنا چاہتے ہیں۔

پھر زندگی کے خوبصورت لمحات کا آغاز ہوا، فرمایا گیا سعودی عرب کی وزارتِ اطلاعات نے آپ کو حج پر مدعو  کیا ہے۔ کراچی پہنچ جایئے مجھے یہ سن کر شادی مرگ کی سی کیفیت طارق ہونے لگی سمجھ  نہیں آ رہا تھا تسلی کے لئے دوبارہ سفارتخانے فون کیا، سب جا چکے تھے۔ کراچی میں فضل صاحب سے درخواست کی، تفصیلات حاصل کریں کب جانا ہے، شام کو فضل نے بتایا 17مارچ کو آخری فلائٹ سے آپ جائیں گے۔ خدایا تیری شانِ کریمی کے صدقے میں اتنا کہہ سکا،17مارچ روانگی سے حج کی سعادت کی،روداد دلچسپ انداز میں تحریر کی ہے۔ 30برس  بعد1997ء میں دوبارہ بلاوا آیا جناب الطاف حسن قریشی جنہوں نے اب تک چھ دفعہ حج کی سعادت حاصل کی ہے صرف دو دفعہ کی روداد تحریر کی ہے ان کے عشق ِ رسولؐ اور تعلق بلا کا انداز ہوتا  ہے اِس کتاب کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ جناب الطاف حسن قرشی صاحب نے حج کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز بھی تحریر کی ہیں جو مختلف انداز میں سعودی حکام تک بھی پہنچا دیتے ہیں۔ قافلے دِل کے چلے، پڑھنے والی کتاب ہے اہل ِ ذوق اور حرمین شریفین سے محبت کرنے والوں کے لئے خوبصورت اور انمول تحفہ ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -