امریکہ میں ڈیزل انجن کی کامیابی دیکھ کر دیگر ممالک نے بھی دخانی انجنوں کو بتدریج الوداع کہہ دیا، آنجہانی سٹیم انجنوں کے جگہ جگہ قبرستان بن گئے
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:13
امریکہ میں ڈیزل انجن کی کامیابی کو دیکھ کر دوسرے ممالک نے بھی دخانی انجنوں کو بتدریج الوداع کہہ کر اپنی ریل گاڑیوں کو ڈیزل لوکوموٹیو کے حوالے کردیا۔ آنجہانی اسٹیم انجنوں کے لیے ملک میں جگہ جگہ قبرستان بن گئے اور برسوں تک ریلوے اور مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والے سیکڑوں انجنوں کو بے رحمانہ طریقے سے ان قبرستانوں میں دھکیل دیا گیا جہاں وہ جیتے جی ہی مر گئے، ان کی لاشیں بھی موسم کی سختیاں برداشت نہ کر سکیں اور دھیرے دھیرے گل سڑ گئیں۔
ساری دْنیا میں ریل گاڑی کا آغاز ہو چکا تھا اور رفتہ رفتہ نقل و حمل کا یہ ذریعہ روز مرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا تھا اور اس کے بغیر طویل سفر کا تصوربھی محال تھا۔
ریل گاڑی ہندوستان بھی آن پہنچی
ہندوستان کی پہلی گاڑی
جب انگریز اپنے ملک میں چپے چپے پر ریل کی پٹریاں بچھا کر ایک مربوط نظام کے تحت سارے شہروں کا آپس میں رابطہ قائم کر رہے تھے تو ان کے ذہن کی کسی کونے میں اس سہولت کو اپنے تمام زیرقبضہ علاقوں تک پہنچانے کا منصوبہ بھی تھا۔ اس لیے نہیں کہ انھیں ان ممالک خصوصاً ہندوستان سے کچھ زیادہ ہی محبت تھی، بلکہ وہ اس پر اپنا مضبوط تسلط قائم رکھنے کے لیے ریلوے کا یہ نظام ہندوستان میں متعارف کروانا چاہتے تھے۔جس سے ایک طرف تو ہندوستان میں مقیم اْن کی افواج کو نقل و حرکت میں آسانی ہو جاتی تو دوسری طرف وہاں سے خام مال اٹھا کر بندرگاہوں کی طرف لے جایا جانا تھا- جہاں سے اْسے بحری جہازوں پر لاد کر برطانیہ، یورپ، امریکہ اور دنیا بھر کے دوسرے ملکوں تک بھیجنا مقصودتھا۔ جب یہی جہاز ہندوستان واپس آتے تو وہاں کی ملوں اور فیکٹریوں کا تیار کردہ سامان ساتھ لاتے تھے جو یہاں پہنچ کرانتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتا تھا۔ ذرائع آمد و رفت نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں ساری بار برداری، گھوڑا، اونٹ اور بیل گاڑیوں پر ہی ہوتی تھی۔کبھی کبھار ہاتھی بھی مدد کو آن پہنچتے تھے۔ ریل کی آمد سے قبل مسافروں کی نقل و حرکت کا سارا نظام بھی چھکڑوں، اونٹ اور بیل گاڑیوں کے ارد گرد ہی گھومتا تھا۔ بھاری اور زیادہ تعداد میں مسافر اور سامان ڈھونے کے لیے ابھی ٹرک یا بسیں وغیرہ ہندوستان نہیں پہنچی تھیں اور نہ ہی اس وقت سڑکوں کا کوئی قابل بھروسہ نظام موجود تھا۔ انگریز سپاہی ایک چھاؤنی سے دوسری تک جانے کے لیے گھوڑوں اور بگھیوں پر سفر کیا کرتے تھے اور ان کا سامان مزدور مختلف طریقوں سے وہاں پہنچاتے تھے۔ مقامی لوگ تو ایسے ماحول میں رہنے کے عادی تھے اس لیے اْن کے مطابق تو سب کچھ معمول کے مطابق ہی چل رہا تھا۔ تاہم انگریزوں کو زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنے اور پھر اْسے برقرار رکھنے کے لیے تیز رفتار سواریوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی- پھر مختلف علاقوں میں جنگیں لڑنے یا بغاوت کچلنے کے لیے بھی وہاں جلد از جلد جنگی سازو سامان اور کمک پہنچانا ضروری ہوتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔