محترم سمیع اللہ بٹ بھی رخصت ہوئے! اِنا للہ وانا الیہ راجعون
دنیا میں آنے اور جانے کا نظام بڑا مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، گرمی ہو، سردی ہو، محرم ہو، عید ہو جس کا وقت آ گیا اُس نے جانا ہے یقینا جانے والا ابدی زندگی کی طرف روانگی کے ساتھ ہمیں باور کراتا جاتا ہے۔ بھائیو میں تو چلا اب آپ لوگوں کی باری ہے، روح نکلنے کے بعد رخصت ہونے والا ہمارہ نہیں بنتا تو ہم تو ٹھہرے دنیا دار،ہم سنجیدہ نہیں ہوتے، مرنے والے سے اگر طویل تعلق جڑا ہو، لواحقین کی خواہش ہو کہ مرحوم کی نمازِ جنازہ محترم حافظ محمد ادریس پڑھائیں اور وہ بھی بلند آواز سے، مسجد بھی ہو اللّٰہ اکبر ڈی ایچ اے لاہور کی ہو،سمیع اللّٰہ بٹ جیسے درویش کی میت پڑھی ہو سامنے اور مسجد کے خوبصورت حال میں حافظ محمد ادریس کی رقعت آمیز آواز میں مرنے والے کے لئے دعائیں ہوں،مرنے والے کے لئے ایک دُعا ہو باقی ساری دعائیں ہمارے امام کے پیچھے کھڑے ہونے والوں کے لئے،ان حالات میں مرنا بھی یاد آتا ہے اور مرنے والے سے جڑی ہوئی یادیں بھی تازہ ہوتی ہیں یہی سب کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا اللّٰہ بھلا کرے محترم مشتاق بٹ صاحب کا جو میرے گھر تشریف لائے۔ سعید احمد پراچہ اور فیاض احمد فیضی کی رفاقت میں ہم اقبال ٹاؤن سے محترم سمیع اللّٰہبٹ صاحب کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ڈی ایچ اے فیز ون کی اللّٰہ اکبر مسجد میں پہنچ گئے۔ نمازِ عشاء بھی مل گئی اور محترم بٹ صاحب کا نمازِ جنازہ بھی مل گیا اور حسب ِ معمول احباب کی بڑی تعداد سے ملاقاتیں بھی ہو گئیں۔ محترم مشتاق بٹ کے ساتھ واپسی پر فوری فیصلہ کیا محترم سمیع اللّٰہ بٹ صاحب کی یادیں کالم لکھ کر تازہ کی جائیں۔ گاڑی میں بیٹھے ہی میں نے محترم فرید احمد پراچہ صاحب کو واٹس اپ پیغام کے ذریعے محترم سمیع اللّٰہ بٹ کی زندگی پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی میاں مقصود احمد صاحب کو پیغام ریکارڈ کرا دیا۔ تیسرا پیغام محترم لیاقت بلوچ اور افتخار احمد چودھری کو دیا۔ سمیع اللّٰہ بٹ صاحب کے بارے میں رہنمائی فرمائیں، حالانکہ1990ء میں پنجاب یونیورسٹی میں میرے داخلے اور رکنیت کی منتقلی کے بعد جن چمکتے دھمکتے دو روشن ستاروں سے واسطہ پڑا تھا ان میں عبدالحفیظ احمد صاحب پہلے نمبر پر اور محترم سمیع اللّٰہ بٹ دوسرے نمبر پر تھے اس وقت دونوں احباب جمعیت سے فارغ ہو کر جماعت میں اہم ذمہ داریوں پر تھے۔اسلامی جمعیت طلبہ میں رہتے ہوئے اتنا رابطہ نہیں رہا،البتہ1997ء میں جب میں محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کی زیر سایہ ہفت روزہ ”زندگی اور قومی ڈائجسٹ“ سے وابستہ ہوا تو دونوں احباب سے تعلق مضبوط ہوتا گیا اس کی بنیادی وجہ محترم عبدالحفیظ احمد البدر کی وجہ سے اور محترم سمیع اللّٰہ بٹ صاحب کاغذ کے کاروبار کی وجہ سے ملتے رہتے، دونوں شخصیات کی مشترکہ خوبی دونوں دائمے اور ادبی مزاج کے تھے۔ 1998ء کے بعد محترم عبدالحفیظ احمد صاحب سے قربت مزید بڑھ گئی کیوں ہم ان کے ہمسائے مسجد ابوہریرہ ایک ساتھ نمازی بن گئے ان سے نمازِ فجر اور نمازِ مغرب، عشاء نے تعلق کو مزید دوام بخشا۔عبدالحفیظ اور محترم سمیع اللّٰہ بٹ صاحب سے تعلق مزید مضبوط ہونے کی وجہ محترم شامی صاحب بھی تھے، کیونکہ دونوں احباب کا گہرا تعلق ان سے بھی تھا، دونوں شامی صاحب کے ساتھ بھی رابطے میں رہتے تھے، محفلیں جمتی رہتی تھیں۔ میں گھر پہنچا تو محترم فرید احمد پراچہ صاحب کا جواب آیا ہوا تھا انتہائی پیارے انداز میں محترم سمیع اللّٰہ بٹ صاحب کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ تفصیل آپ کو سلیم منصور خالد صاحب سے مل جائے گی،حالانکہ سب کچھ بتا بھی دیا تھا ان سے جڑی ہوئی حسین یادیں ان کی جدائی کا غم سب کچھ ان کے پیغام میں عیاں تھا۔فرید بھائی کا پیغام سن کے فارغ ہوا ہی تھا تو محترم میاں مقصود احمد صاحب کا تفصیلی جواب آ چکا تھا ان سے میں نے گِلہ کیا تھا آپ جنازہ میں نظر نہیں آئے تو میاں صاحب فرمانے لگے،میں جنازہ میں موجود تھا اور پہلی صف میں تھا پھردرویش بٹ صاحب کے حوالے سے بتانے لگے بٹ صاحب کا تعلق گجرات کے ایک علاقے جلال لپور جٹاں سے تھا، بٹ صاحب کے ماموں لاہور میں رہتے تھے، تعلیم کے حصول کے لئے ان کے پاس رحمن پورہ میں رہتے تھے یہی سے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے، رکن لاہورکے کالجز کے ناظم اور پھرناظم لاہور بنے۔ صوبائی اور مرکزی شوریٰ کے رکن رہے رحمن پورہ اچھرہ میں بڑا کام کیا، جمعیت سے فراغت کے بعد جماعت کے1975ء میں رکن بن گئے۔محترم لیاقت بلوچ صاحب امیر لاہور بنے ان کے ساتھ سیکرٹری لاہور کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کی۔ فرید احمد پراچہ صاحب امیر جماعت اسلامی بنے ان کے ساتھ بھی قیم لاہور رہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہونے کے بعد گنپت روڈ میں کاغذ کے کاروبار سے منسلک ہو گئے، ٹھنڈی ملنسار طبیعت کی وجہ سے کم عرصے میں تاجروں میں مقام بنا لیا۔ صدر اور پھر چیئرمین بنے، عرصہ تک تاجر ایسوسی ایشن گنپت روڈ کے سرپرست رہے۔ ثریا عظیم کے ایڈمنسٹریٹر رہے بڑا کام کیا۔ لیاقت بلوچ صاحب امیر صوبہ بنے تو سمیع اللّٰہ بٹ صاحب کو صوبہ میں لے گئے، کئی کمیٹیوں کی ذمہ داری رہی۔ شہدائے اسلام فاؤنڈیشن کے ذمہ دار رہے،واجپائی دور میں گرفتاریاں ہوئیں تو میانوالی جیل میں ایک کمرے میں ہمارے ساتھ رہے۔ مرکز جمعیت میں ہمقدم اور مطبوعات طلبہ میں بھی ذمہ دار رہے۔ تحریک ختم نبوت میں سرگم رہے کئی دفعہ گرفتار ہوئے ساری یادیں میاں مقصود احمد نے تازہ کر دیں تھیں علمی شخصیت تھے۔ محترم شامی صاحب کے ساتھ ”زندگی، قومی ڈائجسٹ“ کے ساتھ50لوئر مال کا مضبوط تعلق، روزنامہ ”پاکستان“ میں بھی جاری رہا۔ جب بھی شامی صاحب سے ملنے آتے پہلے میرے پاس آتے۔
محترم عبدالحفیظ احمد اور محترم سمیع اللّٰہ بٹ صاحب کے ساتھ متعدد بار ناشتوں اور کھانوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔سمیع اللّٰہ بٹ صاحب قرآن سے جڑے ہوئے وہ درویش تھے جو سید مودودیؒ کے سپاہی کی حیثیت سے ساری زندگی دعوتِ فکر سے منسلک رہے مطالعہ کا شوق بہت زیادہ تھا، کھانے سے زیادہ کھلانے کا شوق تھا اُنہیں، بیماری میں بھی دوستوں سے رابطہ ٹوٹنے نہیں دیتے تھے۔گزشتہ دو سال سے وہیل چیئر پر آ گئے تھے رابطہ کم ہو گیا اس سے پہلے ٹیلیفون پر بھی رابطہ رہا ایسے بھلے انسان کب رزو روز آتے ہیں۔ بٹ صاحب جیسی شخصیات دنیا میں بھی مشن لے کر آتی ہیں اور مشن کی تکمیل کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش ہو جاتے ہیں اللّٰہ ان کی آخری منازل آسان فرمائے جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے، لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ ہمارے اور ان کے مشترکہ دوست عبدالحفیظ احمد کو بھی کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے اور ہمیں بھی آخرت کی تیاری کی توفیق عطاء فرمائے، اللّٰہ ہم سب سے راضی ہو جائے۔نوٹ: محترم لیاقت بلوچ، سلمان صدیق اور افتخار چودھری کا تفصیلی واٹس اپ پیغام سمیع اللّٰہ بٹ صاحب کی یادیں اس وقت وصول ہوا جب کالم لکھ چکا تھا ان کے پیغامات سے بٹ صاحب کی شخصیت کے مزید پہلو سامنے آئے جو ان کے جنتی ہونے کی گواہی کے لئے کافی تھے دوستوں سے معزرت!
٭٭٭٭٭