امریکی حکومت کو چینیوں کا اتنا خوف کہ ہوٹل میں بیٹھنے سے ہی انکار کر دیا ،دنیا بھر میں ہی تماشا بنا دیا
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)چین کی جاسوسی کے خوف سے امریکہ نے ویلڈروف آسٹرویا ٹاور سے 50سالہ تعلق توڑ دیا۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے سفیر اوراس کے ساتھ جانے والے سینکڑوں عہدیداروں کو ”ویلڈروف آسٹرویا“ نامی ہوٹل میں ٹھہرنے سے منع کر دیا۔ امریکی سفیر اور دیگر عہدے دارجنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پرگزشتہ 50سال سے اسی ٹاور میں ٹھہرتے آئے ہیں اور اسی عمارت میں ان کے اہم اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس مقصد کے لیے ٹاور میں ایک اپارٹمنٹ لیز پر لے رکھا تھا۔اس بار ہوایہ ہے کہ پہلے یہ ہوٹل ایک مریکی کمپنی ہلٹن ورلڈ وائیڈکی ملکیت تھا،اس نے گزشتہ سال 1کروڑ 95لاکھ ڈالر میں یہ ہوٹل چین کے این بینگ انشورنس گروپ کو فروخت کر دیا، اس طرح اب اس ہوٹل کی مالک ایک چینی کمپنی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام کو خطرہ ہے کہ چونکہ یہ ہوٹل اب ایک چینی کمپنی کی ملکیت ہے اس لیے چین امریکی عہدیداروں کی جاسوسی کے لیے کمروں میں آلات لگا سکتا ہے جس سے امریکہ کے راز افشاءہونے کا خدشہ ہے۔
ٹوکیو(مانیٹرنگ ڈیسک) دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں ہے، جاپان کے وہ حصے جہاں امریکی اتحاد نے ایٹم بم چلائے آج بھی سبزے سے محروم ہیں۔ اس جنگ میں جاپانی فوج بے جگری کے ساتھ لڑی لیکن ایٹم بم حملے نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیاتھا۔ اس وقت جاپان کی فضائی فوج میں ایک خودکش سکواڈ بھی شامل تھا، اس سکواڈ کو خصوصی طور پر خود کش حملے کی تربیت دی گئی تھی۔ جنگ میں اس سکواڈ کے چند پائلٹ ہی بچے تھے، ان میں سے ایک ہشاشی تیزوکا ہیں۔ ہشاشی خودکش حملے کے لیے اڑان بھرنے ہی والے تھے کہ جاپان کی طرف سے سرنڈر کرنے کا اعلان کر دیا گیا اس طرح ہشاشی جوموت سے چند منٹ کے فاصلے پر کھڑا تھا، زندگی کی طرف لوٹ آیا۔
ہشاشی کا کہنا ہے کہ خودکش پائلٹ کے لیے ان لوگوں کو بھرتی نہیں کیا جاتا تھا جو والدین کے اکلوتے بیٹے ہوتے تھے، چونکہ میرے بڑے بھائی موجود تھے اس لیے مجھے آسانی سے خودکش پائلٹ کے طور پر بھرتی کر لیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں مجھے حملہ کرنے سے قبل 5دن کے لیے چھٹی پر گھر بھیج دیا گیا تاکہ اپنے خاندان سے مل سکوں۔ میرے گھر والوں کو نہیں پتا تھا کہ میں فضائی فوج کے خود کش حملہ آوروں کے یونٹ میں شامل ہو چکا تھا، انہیں صرف اتنا معلوم تھا کہ میں جاپان کی فضائی فوج میں ملازمت کرتا ہوں۔ چھٹیوں سے واپسی پر مجھے موت کے مشن پر روانہ کرنے کی تیاریاں کی جانے لگیں اور جب میں طیارے میں آ کر بیٹھ گیا اور بالکل اڑنے کے قریب تھا تبھی جاپان کی طرف سے سرنڈر کا اعلان کر دیا گیا۔ موت مجھ سے کچھ منٹ کے فاصلے پر ہی تھی لیکن میں اس کے لیے پوری طرح تیار تھا، سرنڈر کا اعلان سن کر میرا دماغ بالکل خالی ہو گیا۔ ہشاشی کو جہاز اڑانے کا بہت شوق تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنا کاروبار کرنے لگا۔