آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر62
ساون بھادوں کے موسم میں سی پی کے دیہات خاصے خطرناک ہو جاتے ہیں۔سانپ،بچھو گھروں میں رینگتے پھرتے ہیں اور درندوں کا تو گویا راج ہوتا ہے۔وہ دیہات میں بے جھجک گھس کروار داتیںکرتے ہیں۔اس زمانے میں گیدڑوں ،گوگیوں اور جنگلی بلیوں سے مرغیاں،لگڑ بگڑ سے بکریاں اور تیندووں سے گائے،بکری اور کبھی کبھی انسانی جانیں بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔شاید ہی کوئی ایسی رات ہو گی جب کسی نہ کسی قسم کی واردات نہ ہوتی ہو۔
کیچڑ پانی کے سبب گھر سے قدم نکالنا مشکل تھا۔ میں پچھتارہا تھا ناحق اس موسم میں ادھر کا رخ کیا مگر چچازاد بھائی سمیع اللہ کو مٹی کے تیل کا ٹین پہنچانا ضروری تھا، ورنہ انہیں پوری برسات اندھیرے میں کاٹنی پڑتی۔ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور مٹی کا تیل کہیں دستیاب نہ تھا۔ کہیں سے نہ مل سکا تو مجھے لکھ بھیجا اور میں اپنے دوست نائب تحصیلدار ریود کرکے دیے ہوئے پرمٹ پر تیل حاصل کرکے پہنچانے آیا تھا مگر بارش اور جلہری نالے کے سیلاب سے راستہ بند ہو گیا۔ جولی، گھنے جنگلوں میں چھوٹا سا پہاڑی گاﺅں ہے۔پکی سڑک وہاں سے آٹھ میل دور ہے۔جلہری جنگل کے درمیان کچے راستے پر واقع ہے۔ہے تو دس پندرہ فٹ چوڑا، مگر گہرا اس سے کہیں زیادہ ہے اورپتھروں ،چٹانوں اور درختوں سے ٹکراتا اور شور مچاتا اس قدر تیزی سے بہتا ہے کہ سیلاب کے زمانے میں اس کا پار کرنا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔
میرے قیام کا دسواں دن تھا، اودے پورہ گاﺅں سے خبر آئی وہاں ایک تیندوے نے واردات کر دی ہے۔اس علاقے میں ایک عرصہ سے آدم خور شیر یا تیندوے کی کوئی اطلاع نہ تھی، اس لیے مجھے اچنبھا ہوا مگر پیامبر معتبر تھا دھنی رام مال گزارنے مجھے بلا بھیجا تھا۔ اسے جولی میں میرے قیام کا علم تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ لاش کریاکرم کے لیے اٹھوائی جا چکی ہے۔یوں فوری طور پر پہنچنے کی خاص ضرورت تو نہ تھی، تاہم جائے واردات کا معائنہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس لیے میں قاصد جگن ناتھ کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔
اودھے پورہ وہاں سے تقریباً چار میل دور ہے۔اس ناگوار موسم میں یہ سفر خاصا تکلیف دہ رہا۔گاﺅں سے نکلتے ہی جوتے اتار کر جگن ناتھ کے حوالے کرنا پڑے کہ نرم کیچڑ اور پانی میں پاﺅں ٹخنوں تک دھنس جاتے،پھر کالی اور چکنی مٹی کے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چلتے ہوئے ہم قدم قدم پر پھسلتے اور ہر پچیس پچاس گز بعد رک کرپاﺅں دھوتے کہ تلووں پر چکنی مٹی کا بہت موٹا سول چڑھ جاتا اور پاﺅں کئی کئی سیر کے ہو جاتے۔تقریباً دو فرلانگ بعد جنگل اور پہاڑی علاقہ شروع ہوا تو اس مصیبت سے نجات ملی۔
راستے میں جگن ناتھ واردات کی تفصیل سناتا رہا۔
یہ واردات دھنی رام مال گزار کے مویشیوں کی سار میں ہوئی تھی۔ مرنے والا مہابیر کڑیل جوان تھا۔ رات کے دو بجے تیز بارش ہو رہی تھی۔ناگاہ سار میں بند مویشیوں نے الانا شروع کیا اور ادھرادھر بھاگنے لگے۔دھنی رام کے نو عمر بیٹے منی رام نے باپ کی بندوق سنبھالی اور لالٹین لے کر بھیگتے ہوئے صحن کو پار کیا۔ جونہی سار میں داخل ہوا، اس نے دیکھا، خون میں لت پت مہابیر کی لاش پڑی ہے اور مویشی خوفزدہ ہو کر ایک سرے پر جمع ہیں اور ڈکرارہے ہیں۔مہابیر نے اپنی مٹھیوں میں کلہاڑی جکڑ رکھی تھی اور سار کے بیرونی دروازے کا ایک پٹ ذرا سا کھلا تھا۔
”بے چارہ مہابیر نہایت وفادار اور مویشیوں کا بڑا خیال رکھتا ہے۔“منی رام نے سادگی سے کہا۔
”اور کیا۔ ۔“جگن ناتھ نے کہا۔
”تو کیا مہابیر یہاں نہیں رہتا؟“میں نے پوچھا۔
”ناہیں!وہ تواتے باﺅلی کے پاس رہتا ہے۔“جگن ناتھ نے تقریباً تیس گز دور آم کے درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ڈھورالائے،تو سب سے پہلے کلہاڑی لے کر وہی پہنچا۔میری آنکھ تو دیر سے کھلی اور جب میں آیا اس کا کام ہی تمام ہو چکا تھا۔ گلباگ نے گلا داب کر اسے ایسا دبوچا کہ اس کی آواز بھی نہ نکل سکی۔”منی رام بولا۔
”مگر....“ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا:”سار کے بیرونی دروازے کی کنڈی کیا باہر سے بند کی جاتی ہے؟“
”نہیں،اندر کی کنڈی بند ہوتی ہے۔شانتی دیدی روز اپنے ہاتھ سے بند کرتی ہے۔“
”تو وہ کھلی کیونکر؟ یا رات وہ کنڈی بند کرنا بھول گئی تھیں؟ذرا معلوم تو کرو؟“منی رام اپنی بیوہ بہن شنانتی کو بلا لایا۔
وہ کھڑے کھڑے نقش کی،گندمی چہرے والی نازک اور اداس سی لڑکی تھی۔ اس نے بتایا سار کے بیرونی دروازے کی کنڈی ہاتھ ڈال کر باہر سے بھی کھل سکتی ہے،پھر اس نے عملی مظاہرہ بھی کیا سب مطمئن ہو گئے مگر مجھے کچھ شبہ سارہا۔تاہم میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔
شواہد کے مطابق مویشیوں کا شور سن کر مہابیر کلہاڑی لیے دوڑ آیا۔ ہاتھ ڈال کر سار کی اندرونی کنڈی کھولی اور جونہی اندر داخل ہوا، تیندوے نے اسے دبوچ لیا۔
سوال یہ تھا تیندوا سار میں مہابیر سے پہلے کیونکر داخل ہوا۔وہ دروازہ کھلنے کے بعد ہی اندر جا سکتا تھا ۔اس نوع کے سوالات بار بار ذہن میں ابھر رہے تھے۔ ان پر قابو پاکر تیندوے کے آثار تلاش کرنے لگا۔
میرا قیاس غلط ہوا کہ وہ قتل کی واردات تھی۔ سارے گوبر پر تیندوے کے پنجوں کے واضح نشانات تھے اور سار کے باہر دیوار کے سائے میں گیلی زمین پر دور تک نظر آرہے تھے۔
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان... قسط نمبر 61
میں باہر کے مکان کی طرف بڑھنے لگا تو سار کے ساتھ ہی انسان کے پیروں کے نشانات ملے۔ وہ سار کے دروازے کی جانب آئے تھے اور ایک جگہ ان پر تیندوے کا پنجہ یوں پڑا تھا کہ وہ تقریباً نصف اس میں دب گئے تھے۔اب مزید تفتیش کی ضرورت نہ تھی۔(جاری ہے)
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں