سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، تینتیسویں قسط
لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار عبدالسلام خاور نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ عطاء الرحمن سے بند کمرے میں بیان لینے کی بابت بات ہوئی تھی مگر عطاء الرحمن نے اس بات سے بھی انکار کر دیا جس پر جسٹس ملک محمد قیوم نے کہا کہ میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ انکوائری کمیٹی کے سربراہ جج نے تمہارا غلط بیان لکھا، میں تمہیں مہلت دیتا ہوں کہ دوبارہ سوچ سمجھ لو، میں تمہارا ایک مرتبہ پھربیان لوں گا اور پھر علی سبطین فاضلی کو حکم دیا کہ وہ انکوائری کمیٹی کے روبرو عطاء الرحمن کے بیان کا اصل ریکارڈ پیش کریں اور کمیٹی کے ارکان کو بھی طلب کریں جن کے سامنے یہ بیان دیا گیا تھا۔
سٹریٹ فائٹر،وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات،بتیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
عطاء الرحمن کی حلفیہ بیان سے منحرفی کا الزام بھی وسیم اکرم پر آیا۔ کہا گیا کہ وسیم اکرم نے اس پر بے حد دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنے پہلے بیان سے منحرف ہو جائے۔اگر عطاء الرحمن اپنے بیان پر قائم رہتا تو آج وسیم اکرم بھی سلیم ملک اور عطاء الرحمن کی طرح ٹیم سے باہر ہوتا ۔تاہم وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ اس نے عطاء الرحمن پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔
6اکتوبر1998ء کے دن چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی قیام گاہ پر کیمرے کے سامنے مارک ٹیلر اور مارک واگ نے ایک مرتبہ پھر وہی الزامات دوہرائے کہ سلیم ملک نے 1994ء میں انہیں میچ ہارجانے کے لئے رشوت پیش کش کی تھی مگر وہ اس بات کا جواب نہ دے سکے کہ انہوں نے اس بات کو منظر عام پر لانے کے لئے تاخیر سے کام کیوں لیا؟مارک ٹیلر نے کمیشن کو بتایا کہ انہیں کسی نے براہ راست کوئی پیش کش نہیں کی مگر ان کے ساتھی کھلاڑیوں نے ان کو آگاہ کیا کہ انہیں اس قسم کی پیش کش ہوئی ہے۔
90منٹ جاری رہنے والی کارروائی کے دوران آسٹریلوی کھلاڑیوں کے ساتھ آسٹریلین کھلاڑیوں کے ساتھ آسٹریلین ٹیم کے کوچ جیف مارش اور چیف ایگزیکٹو میلکم اسپیڈ بھی موجود تھے جن کو ماجد خان اپنی کار میں لے کر آئے تھے۔آسٹریلوی کھلاڑیوں نے اپنے بیانات کے بعد صحافیوں کو نظر انداز کیا اور فوری طور پر ہوٹل روانہ ہو گئے مگر بعد میں انہوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن کے سامنے بیان دینے کے بعد ان کا کردار ختم ہو گیا ہے۔
یادرہے 1995ء میں مار وا نے بیان دینے کی غرض سے پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا مگر اس مرتبہ وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ چار سال قبل میں نے جو بیان حلفی دیا تھا میں اب بھی اس پر قائم ہوں۔ٹیلر نے کہا کہ ہم بیان دے کر خوش نہیں ہیں مگر ہمیں اس کی ضرورت تھی اور یہ ہمارا فرض تھا۔ میلکم اسپیڈ نے کہا کہ مارک ٹیلر اور مارک وا کی گواہی کے لئے شرائط طے کئے جانے کے بعد بیان دینے کے لئے آسٹریلوی کھلاڑی مطمئن تھے۔
8اکتوبر1998ء کو لاہور ہائیکورٹ کے جناب جسٹس ملک محمد قیوم نے کھلاڑیوں کی اگلی پیشی پر عدالتی کارروائی کے دوران کہا کہ جان بوجھ کر میچ ہارنا ایسے ہی ہے جیسے کہ کشمیر کو فروخت کر دیا جائے۔ تین گھنٹے تک جاری رہنے والی کارروائی میں جناب جسٹس نے واضح کیا کہ کمیشن کے روبرو کھلاڑیوں کو اس لئے بلایا گیا ہے کہ وہ میچ فکسنگ،جوئے اور سٹے سے متعلق افواہوں کے حوالے سے چائی اور حقائق تلاش کرنے میں کمیشن کی معاونت کریں کیونکہ نہ تو کھلاڑیوں کو ملزم بنایا گیا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی چارج لگایا ہے۔
بیان حلفی میں وسیم اکرم نے کہا کہ میرے بہترین علم کے مطابق کسی بیٹسمین نے جان بوجھ کر غلط اسٹروک نہیں کھیلا اور نہ ہی کسی بالر نے غلط بالنگ کروائی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے میں زخمی ہو گیا مگر ٹیم کا مورال بلند رکھنے کے لئے بنگلور گیا۔ اس نے ان الزامات کو غلط قرار دیا کہ اس کے والد کو تاوان کے لئے اغواء کیا گیا اور اس کی بھتیجیوں کو اغواء کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔وسیم اکرم کی آنکھیں اس وقت بھر آئیں جب اس نے کہا کہ بورڈ کے حکام نے کبھی پاکستان کی فتح پر مجھے شاباش کہا نہ کبھی مبارکباد دی۔اس نے کہا میں عمران خان کا دوست ہوں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا لیکن سرفراز نواز سے میرے تعلقات اچھے نہیں شاید یہ وجہ ہو کہ وہ میرے خلاف ہیں۔میں نے عطاء الرحمن کو ٹیم میں شامل کرنے کے لئے کبھی داؤ نہیں ڈالا۔ عطاء الرحمن کے اس بیان کی کیا وقعت ہو سکتی ہے جسے وہ خود کبھی مانتے ہیں کبھی نہیں۔جو صرف میرا ہمسایہ ہے اس کے علاوہ میں اسے نہیں جانتا کہ وہ بکی ہے۔میرا بھائی ندیم اکرم بکی نہیں ہے۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔