اقدامات بروقت ہونے چاہئے
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) امیگریشن نے مختلف ہوائی اڈوں پر تعینات عملے میں سے 17 افسروں کوایک سال گزرنے کے بعد فائنل شو کاز نوٹس جاری کئے ہیں۔ان کو 2023ء میں نوکری سے برخاست کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس یونان کشتی اْلٹنے کے سانحے میں 286 افراد کی ہلاکت کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کے چار ڈائریکٹروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اسے سانحے میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔کمیٹی نے تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوا دی تھی، جس کی روشنی میں وزارت ِداخلہ نے امیگریشن عملے کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے 17 افسروں کو نوکری سے برخاست کرنے کی سفارش کی تھی لیکن متعلقہ عملے نے وہ رپورٹیں دبا لیں۔ اب حالیہ حادثے کے بعد وہ رپورٹ منظر عام پر آئی تو ان افسروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ کمیٹی نے 119 صفحات پر مشتمل رپورٹ دی تھی جس میں خواتین سمیت دیگر کو نوکری سے برخاستگی کی سفارش ڈی جی آفس کو ارسال کی گئی تھی اْس پر عملدرآمد نہیں ہوا تاہم اب مذکورہ افراد کو فائنل شو کاز نوٹس جاری کر تے ہوئے اْنہیں جواب دینے اور ذاتی سنوائی کی درخواست کے لیے 10 روز کا وقت دیا گیاہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل یونان کشتی حادثے میں 40 پاکستانی ہلاک ہوئے جس کے بعد امیگریشن عملے کے کردار کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی کے علاوہ دیگر کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں۔اس سے قبل 2023ء میں بھی یونان کشتی حادثہ پیش آیا تھا جس میں تین سو کے قریب پاکستانی جاں بحق ہو گئے تھے، اس وقت بھی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں سفارشات دی تھیں کہ انسانی سمگلروں کے اثاثے ضبط کر کے اْن کے نام پروویژنل نیشنل آئیڈینٹیفکیشن لسٹ (پی آئی این ایل)میں شامل کرنا چاہیئے، بیرون ملک چْھپے پاکستانی سمگلروں کو انٹرپول کی مدد سے گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کے مشتبہ اہلکاروں کیخلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے۔ اِس کمیٹی نے گزشتہ سال یونان میں پیش آنے والے کشتی سانحے میں ملوث تمام اہم انسانی سمگلروں کے مقدمات کے فیصلے ایک ماہ کے اندر کیے جانے کی سفارش بھی کی تھی۔ لیکن موجودہ صورتحال سے یوں لگتا ہے جیسے اس کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔
انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ طریقے اور انداز بھی بدل رہے ہیں۔ آجکل چونکہ آذر بائیجان کا ویزا باآسانی مل جاتا ہے اس لئے بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان سے لوگ 26 ڈالر دے کر آذربائیجان کا آن لائن وزٹ ویزا حاصل کرتے ہیں، قانونی طور پراس کے دارالحکومت باکو پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے پاکستانی انسانی سمگلر لوگوں کو یورپ سمیت دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک بھجوانے کا جھانسہ دیتے ہیں اور غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ آذر بائیجان میں پاکستانی سمگلروں اور مقامی ٹریول ایجنٹوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور وہ پوری کامیابی سے انسانی سمگلنگ کا دھندہ چلا رہے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں آخری امیگریشن پالیسی 2005 ء میں دی گئی تھی،اس کے بعد سے اب تک قریباً دو دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ملک کے امیگریشن قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، یہ دور جدید کے حالات اور تقاضوں کے مطابق نہیں ہیں جس کی وجہ سے متعلقہ اہلکاروں کے پاس ایسی گنجائش موجود رہتی ہے جس کا فائدہ وہ یا انسانی سمگلر اْٹھاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہوائی اڈوں پر مسافروں کی پروفائلنگ کی جاتی تھی، پھر یہ سلسلہ بند کر دیا گیا، اب لوگوں کو سعودی عرب میں بھکاری بنا کر بھیجنے کا مسئلہ سامنے آیا تو پروفائلنگ دوبارہ شروع کر دی گئی ہے لیکن ابھی یہ سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ جانے والے مسافروں تک محدود ہے۔ دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر امیگریشن کا عملہ ہمہ وقت خفیہ طریقے سے ہر مسافر کی پروفائلنگ کر رہا ہوتا ہے،جس پر اْنہیں شک ہوتا ہے اْسے چْپ چاپ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اگر کوئی امیگریشن عملے کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اْسے کلیئیرنس نہیں دی جاتی اور ڈی پورٹ کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے، امیگریشن پالیسی کو سالانہ بنیادوں پر اپ ڈیٹ کیا جانا چاہئے، اْن رجحانات کو روکناچاہئے جن کی وجہ سے انسانی سمگلنگ کے نئے روٹس بنائے اور چلائے جا سکتے ہیں۔لوگ کسی ملک میں کیوں جا رہے ہیں، کس مقصد کے لئے سفر کر رہے ہیں اس پر نظر رکھنا ضروری ہے، کہیں وہ کسی جگہ کو روٹ ملک کے طور پر استعمال تو نہیں کر رہے۔اب حالیہ یونان حادثے کے بعد خبر آئی کے ہزاروں پاکستانی لیبیا میں موجود ہیں جو وہاں سے دیگر ممالک میں جانے کے لیے اپنی بار ی کا انتظار کر رہے ہیں تو لیبیا میں پاکستانی سفارتخانے کو حرکت میں آنا چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ اتنے پاکستانی آخر وہاں کر کیا رہے ہیں۔ ہر دوسرے روز یہ خبر تو سامنے آتی ہے کہ اتنے لوگ ملک چھوڑ گئے لیکن وہ کہاں گئے اور کیوں گئے اس بارے میں کوئی چھان بین نہیں کی جاتی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو انسانی سمگلر نت نئے طریقوں سے لوگوں کو دوسرے ملک پہنچانے کا ذمہ اٹھاتے ہیں، ان میں سے اگر کوئی بخیر و عافیت منزل پر پہنچ جاتا ہے تو اس ایجنٹ کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، کھلم کھلا اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے، لوگ جوق در جوق اس کے پاس جاتے ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ ایسا متعلقہ اداروں کی ملی بھگت کی وجہ سے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔
انسانی سمگلنگ پر قابو پانا کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے، اگر نیت ہو تو ہر کام آسان ہو سکتا ہے۔اب بھی وقت ہے متعلقہ ادارے اپنا قبلہ درست کر لیں، چند پیسوں کی خاطر انسانی جان سے کھیلنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔اس ملک میں المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بہت شور اٹھتا ہے، سب کی توجہ اس پر مرکوز ہو جاتی ہے، کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، وعدے کئے جاتے ہیں، اعلانات ہوتے ہیں لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے جذبات بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔موجود حالات میں تو افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ برس کمیٹی بنی، اس نے تحقیقات کیں، رپورٹ مرتب کی،سفارشات بھی دیں لیکن متعلقہ محکمے نے انہیں دبا لیا، اس پر عملدرآمد کرنا ہی گوارا نہیں کیا، اس سے بڑی مجرمانہ غفلت اور کیا ہو سکتی ہے۔ جو شوکاز نوٹس اب جاری کئے گئے ہیں، اگر اس وقت کر لئے جاتے تو شائد یہ دوسرا حادثہ نہ ہوتا۔اب افسروں کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو دبانے والے ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی ہو نی چاہئے۔کیا یہ ضروری ہے کہ حکام کو جھنجوڑنے کے لئے کسی حادثے یا سانحے کا ہی انتظار کیا جائے۔