شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 79
دین کی تعلیم اور شعور اُجاگر کر نے کی تڑپ رکھنے والا اللہ کا برگزیدہ بندہ ہوتاہے ۔وہ جب گمراہ مسلمان کو بندۂ مومن بنانے کی جدوجہد کرتا ہے تو مادی ترقی کی خواہش اس پر غالب نہیں آتی۔اس پر دنیا کی حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے اور باطن کا عروج و معرفت اسے حیات آخروی وابدی سے بھی آشکار کردیتی ہے ۔وہ ابہام میں الجھا ہوا نہیں ہوتا۔اسکی نظر اسرار بیں ہوتی ہے لہذا وہ دنیا کو دین کی نگاہ سے دیکھتا اور انسانوں کو سدھارنے کا نہایت احسن طریقہ اختیار کرتا ہے۔۔۔ اور یہ طریقہ علم وتربیت سے منسوب ہوتا ہے۔ اس کے اعلٰی و ارفع مقاصد شریعت محمدیؐ سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور وہ صرف اس عظیم مقصد کو ہی تقویت اور اہمیت دیتا ہے۔ حضرت پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی نے برطانیہ میں دین کی تعلیم کو تصوف پر فوقیت دی اور اس یقین کے ساتھ مسلمانوں کی اصلاح کرکے انہیں دینی تعلیم کی جانب راغب فرماتے کہ جب مسلمان دین کو سمجھ اور سیکھ لیں گے تو ان کے باقی معاملات بھی بہتر ہو جائیں گے۔ آپ نے تعلیم و تربیت کے خطوط قائم کئے اور جب ابھی آپ فیکٹری میں مزدور کی حیثیت سے کام کر رہے تھے تو آپ نے مسلمانوں کی نئی پود میں دین سے محبت کیلئے حسن اخلاق کو نمونہ بنایا اور عملی طور پر انہیں ایک مسلمان کے رویہ اور تشخص سے باور کرایا۔ حافظ محمد بلال نوشاہی عرصہ 36 سال سے حضرت پیر صاحب کے حلقہ ارادت میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قبلہ پیر صاحب کی شان ولایت کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اللہ کے دین اور اسوۂمحمدﷺ اور حضرت غوث الاعظمؒ کے پیغامات کو عام کیا اور اس کی عملاً تربیت کا اہتمام یوں کیا کہ آپ نے مدارس قائم کر کے برطانوی مسلمانوں کو بہترین نسل فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں 1980ء میں چک سواری آزاد کشمیر میں پیدا ہوا لیکن 1982ء میں والدین بریڈ فورڈ آ گئے۔ میرے والدین عرصہ دراز سے حضرت قبلہ پیر صاحب کے ارادت مندوں میں شامل تھے۔ پھر جب انہوں نے حضرت قبلہ پیر صاحب کی بیعت کی تو میں بھی آپ کا مرید بن گیا۔ اس وقت میرے دل میں پیر صاحب کی شخصیت نے بہت اچھا تاثر قائم کیا تھاجو آج بھی قائم ہے۔ آپ نہایت شیریں لہجے میں نرمی اور محبت سے بات کرتے اور بچوں پر بے پناہ شفقت فرماتے۔ آپ کی باتیں سن کر میرے دل میں اُمنگ پیدا ہوتی کہ مجھے دین کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب میں بارہ سال کا ہوا تو میں نے اپنے والد حاجی عبدالواحد علی نوشاہی سے گزارش کی میں قرآن پاک حفظ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے سراہا۔ اس زمانے میں ابھی میں سیکنڈری ایجوکیشن لے رہا تھا۔ مجھے علم تھا کہ حضرت قبلہ پیر صاحب نے نوشہ پورشریف جہلم میں جامعہ نوشاہیہ تعمیر کی ہے جہاں دین کی تعلیم و تربیت کیلئے بچوں کو پڑھایا سکھایا جاتا ہے۔ لہٰذا میں نے جب فیصلہ کیا توقبلہ پیر صاحب کے ہمراہ جامعہ نوشاہیہ میں چلا گیا۔ میں ان پہلے طلبا میں شامل ہوں جنہوں نے جامعہ نوشاہیہ میں قرآن پاک حفظ کیا اور قرآت سیکھی۔ اس وقت میرے والدین نے مجھے کہا بھی کہ دیکھو یورپ سے پاکستان جانا کچھ زیادہ اچھا تاثر نہیں دیتا۔ تمہاری تعلیم یہاں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ تم مجبور نہیں ہو کہ وہاں جاؤ۔ لیکن میں اپنے فیصلہ پر ڈٹ گیا۔ قبلہ پیر صاحب روزانہ بریڈ فورڈ سے نوشہ پورشریف فون کرتے، ہم طلبا سے بات کرتے اور ہمارے روزانہ کے معمولات پوچھتے کہ کیا کھایا ہے، کب سوئے، کب جاگے، کیا پڑھا ہے۔ کھیلتے بھی ہو کہ نہیں، آج کون کونسی کتب پڑھی، صحت کیسی ہے، کھانے کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، کیا کھانا پسند کرتے ہو۔ کپڑے صاف ملتے ہیں، دھونے میں مسئلہ تو نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پیر صاحب حضور نے مجھ ایسے طلبا سے اتنی شفقت اور خیال رکھا اور کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ میں بریڈ فورڈ کی بجائے نوشہ پورشریف کی نوآبادی کے ایک زیر تکمیل مدرسہ میں پڑھ رہا ہوں۔ آپ کی محبت کا تصرف ہمارے دلوں میں چاہت اور خوشی کے پھول بکھیرتا تھا۔ حفظ وقرآت کے بعد میں واپس بریڈ فورڈآیا اور گرائمر سکول میں پڑھنا شروع کر دیا۔ قبلہ پیر صاحب مجھے خود پڑھاتے ۔ میں آپ کے گھر کا فرد بن گیا تھا۔ دن رات آپ کے ساتھ رہتا۔ آپ فرماتے کہ دیکھو سب سے افضل کام ہے دین کی پڑھائی۔ لہٰذا میں آپ کی صحبت میں اسی عقیدہ اور نظریہ کے ساتھ پروان چڑھتا رہا۔ دین کی تعلیم کے دوران مجھے تصوف کا علم نہیں تھا مگر جب مجھے پیر صاحب نے اپنے حسنِ سلوک سے پڑھانا شروع کیا تو صوفیانہ طریقت سے بھی آگاہ کیا۔ آپ نے مجھے قصیدہ بردہ شریف خود پڑھنا سکھایا۔ میں نے جب قصیدہ بردہ شریف پڑھنا شروع کیا تو مجھ پر کیفیت طاری ہونے لگی اور پھر باطن کا عقدہ کھلا۔ اس سے میرا ذوق اور لگن بھی بڑھی۔ قبلہ پیر صاحب کے حکم پر میں نے آپ کے گھر کے سامنے موجود مسجد میں امامت شروع کی اور بچوں کو پڑھانا بھی شروع کر دیا۔ اب میں جمعیت تبلیغ الاسلام کے مرکزمیں ہر جمعہ کے روز اردو اور انگریزی میں خطبہ بھی دیتا ہوں اور حضرت قبلہ پیر صاحب سے ڈسکس کرتا ہوں کہ خطبہ میں کیا پیغام دینا چاہئے۔
میرے شیخ حضرت قبلہ پیر صاحب تصرف ہیں۔ تاہم آپ اپنا باطن ظاہر نہیں فرماتے لیکن آپ کی صحبت میں بیٹھنے اور آپ سے ملنے والے کو علم ہو جاتا ہے کہ وہ ولی کامل کی بارگاہ میں بیٹھے ہیں۔ شروع میں میرے دل میں خیال آتا کہ شیخ صاحبان اپنے سلسلہ کی تبلیغ فرماتے ہیں مگر ہماے مرشد کریم سلسلہ نوشاہی کی تبلیغ پر زور نہیں دیتے۔ میں نے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا۔
’’حافظ صاحب سب سے پہلا کام اللہ اور رسول اللہؐ کا پیغام اُمہ تک پہنچانا فرض ہے۔ جب ہم یہ خدمت انجام دیں گے تو سلسلہ ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہے گا‘‘۔
ایک بار میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ کے محبوب بندے تو ہوا میں اڑتے ہیں۔ یہ باتیں ہم نے پڑھ رکھی ہیں مگر اب ایسا کیوں نظر نہیں آتا۔ میں یہ سوال لیکر جب آپ کے پاس گیا تو آپ نے میری خیریت پوچھی اور پھر آپ نے نگاہ فرماتے ہوئے دھیمے اور ٹھوس انداز میں فرمایا۔
’’حافظ صاحب ہوا میں اڑنا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ کام تو استدراج سے مدد لیکر ہندو بھی کر لیتے ہیں۔ اصل کام ہے دین پر استقامت قائم رکھنا اور اللہ کے دین کی اشاعت پر ڈٹ جانا‘‘۔ ایسا ایک بار نہیں ہزاروں بار دیکھا ہے، آپ کے تصرفات سے طلبا و اہل سلوک کے نظریات تبدیل ہو گئے۔