لاہور پولیس ویلڈن

مختلف خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے تھریٹس کے باوجود، یوم شہادت امام علیؓکے موقع پر لاہور پولیس نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پولیس پنجاب کی ہدایت پر خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو فول پروف سکیورٹی انتظامات کئے تھے پوری فورس بالخصو ص سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ، ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سید زیشان رضا، ڈی آئی جی ٹریفک اطہر وحیداور شہر بھر کے تمام ایس پیز،ایس ڈی پی اوز،ٹریفک پولیس شاباش کے مستحق ہیں بلکہ ڈی آئی جی آپریشنزنے جس طرح خلوص،محبت، پیار اور دلجمعی سے اب تک کام کیا ہے وہ واقعی سیلوٹ کے حقدار ہیں۔ فیصل کامران کو لاہور میں تعینات ہوئے تقریباً 11ماہ ہو گئے ہیں جب وہ لاہور میں تعینات ہوئے تو شہر میں امن وامان کے حوالے سے صورت حال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں تھی۔ فیصل کامران کی تعیناتی کے بعد انہوں نے شہر کو امن کا گہوارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور شہر میں جرائم کی شرح میں حقیقی کمی واقع ہوئی ڈی آئی جی نے چارج لیتے ہی شہر کے کئی تھانوں میں اچانک چھاپے دے مارے ان چھاپوں کے دوران انہوں نے ماتحتوں کو اپنا تعارف جلالی افسر کے طور پر نہیں کروایا بلکہ وہ جہاں بھی گئے اپنی محبت اور پیارکی داستانیں چھوڑ آئے اور انھوں نے ماتحتوں کو بھی یہ بات باور کروائی کہ جس اللہ تعالی نے فرشتوں کو انسانوں کی حفاظت پر مامور کر رکھا ہے اسی طرح اللہ رب کریم نے اس عوام کے جان ومال کی حفاظت کے لیے ہماری ڈیوٹی تفویض کر رکھی ہے ہمیں بھی ان سے پیار، محبت اور شفقت سے پیش آناچاہیے۔فیصل کامران نے چارج لینے کے بعد لاہور کے ایس ایچ اوز کو جو سب سے بڑا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ کسی بھی مقدمے کے جرم میں تخفیف نہیں کی جائے گی اصل دفعات کے تحت ہی مقدمہ بروقت درج ہو گا کیونکہ زیادہ تر ایس ایچ او صاحبان نے اپنے علاقے میں جرائم کی شرح میں کمی لانے کا آسان حل تلاش کر رکھا تھا کہ وہ ڈکیتی کے مقدمے کو چوری اور چوری کے مقدمات کو نوسر بازی کی دفعات کے تحت درج کردیتے تھے لیکن ڈی آئی جی فیصل کامران نے ان عادات کے حامل ایس ایچ او صاحبان کو معطلی کی سزائیں دی ہیں جس کے بعد آج لاہور میں کوئی شہری یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کا مقدمہ بروقت درج نہیں ہوا یاغلط دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی فیصل کامران کے والدین لاہور میں نہیں ہیں جب سے انہوں نے یہاں نوکری سنبھالی ہے وہ کام کام اور صرف کام کرتے نظر آرہے ہیں بلکہ انکی وجہ سے کئی ایسے افسروں کو بھی دفتروں سے نکل کر فیلڈ میں جانا پڑا جو کبھی خودگئے نہیں تھے اور نہ ہی اس طرح کی نوکری کے حق میں تھے۔اب بھی لاہور کے باسیوں کی جانب سے اگر انھیں خراج تحسین پیش نہیں کیا جا تا تو یقینا اس فورس بالخصوص ڈی آئی جی فیصل کامران کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہو گی۔پنجاب اسمبلی میں پہلی مشترکہ ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیا ء سی پی اے کانفرنس ہو،یوم عاشور،عرس داتا علی ہجویری یا چہلم حضرت امام حسینؓ چیمپیئن ٹرافی کا انعقادہو، نماز تراویح یا شہادت یوم علیؓ ہو آخری وقت تک ڈ ی آئی جی فیصل کامران تمام انتظامات کی خود نگرانی کرتے نظر آئے۔