شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانوادہ نوشاہیہ کی خدمات۔۔۔قسط نمبر66
حضرت سیدنا نوشہ گنج بخش ؒکی شخصیت اپنے اپنے دور کے علما وفقرا اور محقیقین کے لئے مینارہ کا درجہ رکھتی تھی۔مشاہیر زمانہ نے آپؒ کے کمالات علمی کا جابجا ذکر خیر فرمایا ہے۔کتاب ”ہیر وارث شاہ“ سیّد وارث شاہ بن گل شیر شاہ گیلانی نور اللہ مرقدہ متوفی 1223ھ کی تصنیف ہے۔ آپ مجدد اعظم قدس سرہ کی وفات سے 86سال بعد 1150ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا مزار جنڈیالہ شیر خان میں ہے۔ آپ نے درسیات کی تکمیل اپنے وقت کے جید عالم مولانا غلام مرتضیٰ قصوری حضوریؒ سے کی۔
بلھے شاہ قصوری کے ہم مکتب تھے۔ فیض باطنی پاک پتن جا کر مشائخ چشتیہ سے حاصل کیا۔ وارث شاہ عالی خاندانی ، علمی مرتبت ، تقوی و پرہیز گاری اور معیاری پنجابی شاعری کے اعتبار سے اپنے زمانے سے آج تک بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ علم و ادب کے قدر دانوںنے ہر زمانے میں آپ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ زمانہ حال کے معروف شاعر بابو ہمدم سیّد وارث شاہؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وارث شاہ، وارث ورثہ شعر دائے پایا شرف ہزار زبان اندر
قلم توڑ مضمون موزوں سارے جادو جاپدا اوہدے بیان اندر
ایک ہندو شاعر لالہ منی لال آتش سید وارث شاہ کے کمالات و محاسن کو دیکھ کر خاموش نہ رہ سکا۔ بے اختیار وہ آپ کی خوبیوں کا اقرار کرتے ہوئے یوں بول اٹھا:
وارث تاج پنجاب دے شاعر اندا
جیویں چن دی ہستی ستاریاں وچ
نقطے نقطے چوں بو توحید آوے
رمزاں گجھیاں اوہدے اشاریاں وچ
لڑی سیّداں وچوں نایاب موتی
ایہ خوبیاں نبی دے پیاریاں وچ
ہیر ترجمہ انہاندا جاپدا اے
آئتاں پاک جوہین سپاریاں وچ
میاں محمد بخش قادری نور اللہ مرقدہ سیف الملوک میں سیّد وارث شاہ کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
وارث شاہ سخن دا وارث نندے کون انہاں نوں
حرف اُہدے تے انگلی دھرنی نائیں قدر اساں نوں
یہ عظیم سادات گیلانیہ کے عظیم صوفی بلند پایہ پنجابی کے شاعروں کے سرتاج اپنی شہرہ آفاق تصنیف ہیر وارث شاہ میں اقوام عالم کے مذہبی پیشواﺅں کا تذکرہ کرتے ہوئے 1180ھ میں حضرت مجدد اعظم قدس سرہ کا نام انتہائی بلند مقام پر تحریر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
ہے ششٹھ نربان ویرا گیا ندا سری کرشن بھگوان اوبھا سیاندا
حاجی نوشہ ہے جیویں نوشاہیا ندا اتے بھگت کبر جولا سیاندا
سائیں شہباز رحمن وارثی صاحب فرہنگ ”ہیر وارث شاہ“ میں لکھتے ہیں: (حاجی ) نوشہ قدس سرہ نام (حاجی) محمد لقب نوشہ خطاب گنج بخش، بھورے والے، حضرت سخی شاہ سلیمان نوری قادری قدس سرہ کے مرید و خلیفہ، آپ نے پیدل چل کر سات حج کئے۔ شاہجہان نے دو گاﺅں ٹھٹھہ عثمان اور بادشاہ پور فتالنگر کے لیے نذر کئے۔ ولادت یکم رمضان 959ھ بمقام گھوگا نوالی تحصیل پھالیہ ضلع گجرات شیر شاہ سوری ( اسلام شاہ سوری) کے زمانے میں ہوئی۔
حضرت عبداللہ المعروف شاہ غلام علی نقشبندی دہلوی
حضرت عبداللہ المعروف شاہ غلام علی نقشبندی دہلوی 1158ھ میں بمقام بٹالہ پنجاب ہندوستان میں پیدا ہوئے۔22 سال کی عمر میں حضرت مرزا مظہر جان جانان ؒ کے ہاتھ پر بیعت ہو کر احمد مجددیؒ مو¿لف مکاتیب شریفہ کے نزدیک آپ تیرھویں صدی کے مجدد ہیں۔ تذکرہ نگاروں نے آپ کی دینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ”مکاتیب شریفہ“ میں آپ سے سوال کیا گیا: یعنی جواولیاءمرتبہ غوثیت پر فائز ہوئے سلسلہ چشتیہ میں بہت ہیں لیکن سلسلہ نقشبندیہ میں ہمیں کوئی نظر نہیں آتا۔ سلسلہ قادریہ میں صرف غوث الاعظم کی اکیلی ذات نظر آتی ہے۔ اس میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟
جواب: ”آپ کا دریافت کرنا کہ سلسلہ چشتیہ میں بہت سے اولیاءمرتبہ غوثیت پر فائز ہوئے ہیں لیکن ہمیں سلسلہ قادریہ میں صرف غوث الاعظم کی اکیلی ذات نظر آتی ہے درست نہیں ہے۔ خاندان قادریہ میں (حاجی ) نوشہ ، شاہ قمیص، میراں عبداللہ، شاہ ابوالمعالی ، شاہ کمال کھتیلی رحمتہ اللہ علیہم اور ان کی مثل اور بھی ہوئے ہیں۔“
آپ کے اس جواب سے حضرت مجدد اعظم قدس سرہ کا نام نامی اسم گرامی غوثوں کی صف میں نمایاں طور پر سر فہرست ہے۔ جس سے آپ کی عظمت اور رفعت شان کا اظہار ہوتا ہے۔
جاری ہے