پاکستان میں وی پی این کا استعمال 

پاکستان میں وی پی این کا استعمال 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کی رجسٹریشن کے حوالے سے سابقہ کوششوں کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے بعد نئی حکمت عملی وضع کر لی ہے۔اس کے تحت ایک نئی لائسنسنگ کیٹیگری کے ذریعے کمپنیاں وی پی این کی خدمات کی فراہمی کے لیے اجازت نامے کی درخواست دے سکیں گی اور اِس سے غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کا مسئلہ حل ہو سکے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ لائسنس حاصل کرنے والے کمپنیاں ہی خدمات فراہم کر سکیں گی جبکہ دیگر وی پی این کمپنیوں کو پاکستان میں غیر رجسٹرڈ قرار دیکر بلاک کر دیا جائے گا۔ پی ٹی اے کے مطابق اِس اقدام سے متعلقہ حکام لائسنس یافتہ سروس فراہم کنندگان کی مدد سے انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کر سکیں گے۔ پی ٹی اے کی پریس ریلیز کے مطابق  وی پی این سروس فراہم کنندگان کو خدمات کی فراہمی کے لیے اِس نئی کیٹیگری کے تحت ڈیٹا کا کلاس لائسنس حاصل کرنا ہو گا جیسا کہ انٹرنیٹ، سیلولر خدمات اور گاڑیوں میں ٹریکر نصب کرنے والی کمپنیاں حاصل کرتی ہیں۔ پی ٹی اے حکام کا خیال ہے کہ اِس سے مقامی کمپنیاں پاکستان کے قوانین، اپنے لائسنس کی شرائط اور ریگولیٹری دفعات کی پابندی کے تحت صارفین کو پراکسی خدمات فراہم کریں گی جبکہ غیر ملکی کمپنیوں کو لائسنسنگ کی بدولت زیادہ موثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکے گا۔ جو کمپنیاں لائسنس حاصل نہیں کریں گی اُنہیں بلاک کر دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق لائسنس یافتہ مقامی وی پی این سروس فراہم کنندگان کا آئیڈیا انفارمیشن ٹیکنالوجی(آئی ٹی) اور اِس سے متعلقہ خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔  پاشا کے چیئرمین نے وزارتِ آئی ٹی اور پی ٹی اے کو بتایا تھا کہ ملک میں قریباً 25 لاکھ فری لانسر ہیں اور اِن میں سے بیشتر خواتین ہیں جو چھوٹے آئی ٹی برآمدی منصوبوں کے ذریعے آمدنی میں اضافہ کر رہی ہیں تاہم اُن کے لیے وی پی این سروس لازم ہے۔مقامی لائسنسنگ سے حکومت مواد کی نگرانی کر سکے گی اس کے سکیورٹی خدشات دور ہو جائیں گے اور صارف کے پاس یہ سہولت ہو گی کہ اگر ایک وی پی این کمپنی اچھی خدمات فراہم نہیں کر رہی تو صارف دوسری کمپنی پر منتقل ہو سکے گا، ساتھ ہی ساتھ لائسنسنگ فیس کی مد میں پی ٹی اے کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ مقامی وی پی این کمپنیوں کو ملک بھر میں خدمات کی فراہمی کے لیے پی ٹی اے کو لائسنس فیس کی مد میں تین لاکھ روپے جبکہ کسی صوبے میں خدمات کے لیے ایک لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔ لائسنس کی مدت 15 سال ہو گی، میعاد ختم ہونے پر 15 سال کی مدت کی ایک اور توسیع ہو سکے گی۔ پی ٹی اے کے لائسنس کی شرائط کا اطلاق وی پی این سروسز فراہم کرنے والی ہر کمپنی پر ہو گا، کمپنیاں اتھارٹی کی خواہش کے مطابق اْن تمام معلومات کی فوری فراہمی کی پابند ہوں گی جن سے تکنیکی،ریگولیٹری یا مالی نوعیت کی مختلف ٹیکنالوجیوں کے علاوہ دیگر خدمات کے پھیلاؤ کو جانچنے میں مدد ملتی ہے جبکہ ایک اور شِق کے مطابق قومی سلامتی کی بنیاد پرکمپنی اپنے خرچ پر سکیورٹی کے مجاز قومی اداروں کو قانونی مداخلت کے آلات فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔ 

یاد رہے کہ رواں سال کے شروع میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ تفصیلات سامنے آئی تھیں کہ اِسی طرح کا نگرانی کا نظام ٹیلی کام کمپنیوں میں پہلے ہی نصب کیا جا چکا ہے کیونکہ وہ بھی پی ٹی اے کی لائسنس یافتہ ہیں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ کسی بھی ٹیلی کام صارف کے ڈیٹا کی نگرانی کی جاسکتی ہے اور اِسے برآمد بھی کیا جاسکتا ہے، وائس کالیں سُنی اور ایس ایم ایس پڑھے جاسکتے ہیں۔ پی ٹی اے کے لائسنس کی یہ شقیں وی پی این فراہم کنندگان پر لاگو ہونے کی صورت پراکسی نیٹ ورکس کے مقصد یعنی گمنامی کی نفی ہو جائے گی۔ بعض تکنیکی ماہرین کی رائے میں پی ٹی اے کا لائسنسنگ کا یہ حربہ شاید کارگر ثابت نہ ہو کیونکہ وی پی این کے استعمال کو روکا ہی نہیں جاسکتا، جیسے ہی حکام کچھ پراکسیوں کو بلاک کریں گے تو لوگ نئی اور متبادل پراکسیوں پر منتقل ہو جائیں گے۔ 

سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا بھر میں مسائل بڑھ رہے ہیں، کہیں نئے قوانین بن رہے ہیں، کہیں موجودہ قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔پاکستان کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا ہے، حکومت پراپیگنڈے اور جھوٹی خبروں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، لیکن اس سارے عمل میں وہ عام لوگوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں صارفین کو سست رفتار انٹرنیٹ، واٹس ایپ پر تصاویر، ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرنے میں دشواری اور وقفے وقفے سے رابطے کے مسائل کا سامنا ہے۔  ورلڈ پاپولیشن کے جائزے کے مطابق پاکستان کی اوسط ڈاؤن لوڈ سپیڈ محض 7.85 ایم بی پی ایس تھی جس میں موبائل کی 19.59 ایم بی پی ایس جبکہ براڈ بینڈ کی اوسط ڈاؤن لوڈ سپیڈ 15.52 ایم بی پی ایس تھی۔پاکستان کے ڈیجیٹل منظر نامے اور انسانی حقوق سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مئی 2023ء تک پاکستان دنیا میں انٹرنیٹ کی سب سے کم رفتار والے ممالک میں سے ایک تھا۔انٹرنیٹ کی سست رفتاری نے جہاں عام آدمی کے لیے مسائل پیدا کر رکھے ہیں وہاں آئی ٹی صنعت سے وابستہ افراد بھی نقصانات برداشت کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق ملکی آئی ٹی برآمدات میں کمی واقع ہوئی۔ ایس بی پی کے مطابق نومبر میں آئی ٹی برآمدات 32.4 کروڑ ڈالر رہیں جو اکتوبر کے مقابلے دو فیصد کم تھیں۔ متعلقہ آئی ٹی ماہرین کے مطابق یہ دو فیصد کمی انٹرنیٹ کی رفتار کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔پاکستان کی آئی ٹی برآمدات اکتوبر میں 33 کروڑ  ڈالر تھیں جو ستمبر سے 13 فیصد زائد تھیں۔ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں آئی ٹی کی برآمدات میں قریباً 35 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ توقع کی جا رہی تھی سالانہ بنیادوں پر یہ اضافہ کم از کم  15 فیصد تک ضرور ہو گا لیکن اب شاید ایسا ممکن نہ ہو پائے۔ حکومت ابھی تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوئی ہے، اس کو لگتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ وی پی این کا استعمال ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انٹرنیٹ ایکٹیویٹی پر مکمل چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا جا سکتا۔اِسی لئے گزشتہ ماہ پی ٹی اے نے وی پی اینز کی رجسٹریشن لازمی قرار دے دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ یکم دسمبر کے بعد غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کام نہیں کریں گے تاہم بعد ازاں پی ٹی اے نے وی پی این پر پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا، کچھ دِنوں بعد خبر آئی کہ پی ٹی اے وی پی این کی رجسٹریشن کرے گی اور پھر سات دسمبر کو خبر آئی کہ پی ٹی اے نے موبائل نمبر کے ذریعے وی پی این رجسٹریشن کی سہولت متعارف کرا دی ہے جس سے مستقل آئی پی نہ رکھنے والے فری لانسر فائدہ اُٹھا سکیں گے اور اب پی ٹی اے نے وی پی این لائسنس جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے پیکا سمیت دیگر بعض قوانین متعارف کرائے ہیں، چند روز قبل بھی حکومت کی طرف سے ”ڈیجیٹل نیشن پاکستان بِل 2024ء“ بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ انٹرنیٹ کی سست رفتار کو بہتر کرنے کے لیے پی ٹی اے ”ٹو افریقہ کیبل“ کی کنیکٹیوٹی شروع کرنے جا رہی ہے جو 2025ء میں فعال بھی ہوجائے گی۔اصولی طور پر حکومت کو چاہئے تھا کہ پہلے وہ انٹرنیٹ کی سپیڈ پر قابو پاتی اور پھر آئی ٹی کی صنعت سے متعلق ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں فائر وال سمیت چیک اینڈ بیلنس کے دیگر حربے آزماتی۔بہتر یہی ہے کہ حکومت ”ٹو افریقہ کیبل“ کے فعال ہونے کا انتظار کر لے۔کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے اگر غور و فکر کر کے موثر حکمت عملی طے کرنی چاہئے،اِس طرح لوگ مسائل سے بچ جائیں گے اور حکومت تنقید سے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -اداریہ -