ادب نواز پولیس

ادب نواز پولیس
ادب نواز پولیس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زیادہ پرانی بات نہیں ہے ۔ پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا ۔ شدت پسندوں کی جانب سے ہر اس شخص کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں جو ان سے اختلاف کرتا تھا ۔ جس ملک کے لئے ہمارے بزرگوں نے جانیں قربان کر دی تھیں وہی ملک خودکش دھماکوں کی لپیٹ میں تھا ۔ ہمارے کئی آفیسرز ، صحافی اور جید عالم دین محض اس لئے خودکش حملوں کا نشانہ بن گئے کہ وہ شدت پسندوں کی کارروائیوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھتے تھے ۔ مورخ گواہی دے گا ، جب خوف کے بادل چھائے تھے تب خاکسار شدت پسندوں پر تحقیقاتی رپورٹس لکھ رہا تھا ۔ اسی دوران میری ان لوگوں سے ملاقات ہوئی جو شدت پسندوں کے قریب تھے اور میں ان سے بھی ملا جو ایسے لوگوں کے خلاف پوری قوت سے لڑ رہے تھے ۔حبس کے اس موسم میں ہی میری کتاب ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ شائع ہوئی تھی ۔ لاہور پریس کلب میں اسی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران شدت پسندوں کے خلاف گرجنے والے ڈاکٹر شبیہ الحسن اسی ہفتے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے تھے ۔ہم چاہیں بھی تو اپنی تاریخ سے یہ لمحات حذف نہیں کر سکتے کیونکہ تاریخ کا یہ باب ہمارے ستر ہزار سے زائد شہدا کے خون سے لکھا گیا ہے ۔ قبائلی پٹی پر فوج جان کی بازی لگا رہی تھی تو شہروں میں سب سے زیادہ پولیس اہلکاراور افسران اسی دور پر آشوب میں قربان ہوئے ۔ پیچھے مڑ کر دیکھوں تو یہ سب ایک خوفناک خواب محسوس ہوتا ہے ۔ تب ہمارا میڈیا دھماکے کے فورا بعد ملنے والے ایس ایم ایس کی بنیاد پر بریکنگ نیوز چلاتا تھا کہ ذمہ داری فلاں گروپ نے قبول کر لی ہے ۔ اسی عرصہ میں میری دوستیاں حساس اداروں میں موجود اہم افراد سے ہونے لگیں ۔ میں نے کئی ریٹائرڈ جرنیلوں اور خفیہ اداروں کے سربراہان کے انٹرویوز بھی کئے ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج اور پولیس نے مل کر لڑی ہے ۔ دہشت گروں نے بھی اسی لئے لاہور میں حساس ادارے کے دفتر سے لے کر پولیس ٹریننگ سینٹر تک براہ راست ہماری فورسز کو نشانہ بنایا تھا ۔عام شہری تو شاید ان حالات میں چند ہزار کی ملازمت کو لات مار کر اپنی جان بچانے کی فکر کرتا لیکن آفرین ہے ان پولیس اہلکاروں پر جو تب بھی ناکوں پر کھڑے نظر آتے تھے ۔میں چونکہ دہشت گردی ، انٹیلی جنس اور طالبانائزیشن پر رپورٹس لکھ رہا تھالہذا جہاں مجھے حساس اداروں اور افواج پاکستان کے اہم افسران سے شناسائی کا موقع ملا وہیں میری متعدد پولیس افسران سے بھی ملاقاتیں رہیں ۔ اس دوران مجھے احساس ہوا کہ پولیس کے بارے میں ہمارے سماج کی سوچ اور رویہ یک طرفہ ہے ۔ہمارا مجموعی خیال یہی ہے کہ پولیس افسر ان اور اہلکاروں کا ادب یا لطیف جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
مجھے اعتراف ہے کہ ان ملاقاتوں سے قبل میری بھی یہی سوچ تھی لیکن سوچ کی اس دیوار میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب مجھے معلوم ہوا کہ بی اے جرنلزم کی جو کتاب پڑھ کر میں نے امتحان پاس کیا تھا وہ کیپٹن (ر) لیاقت ملک نے لکھی تھی جو اس وقت ڈی پی او بہاولنگر ہیں ۔ایس ایس پی لیاقت ملک کا بڑا ادبی و صحافتی حلقہ موجود ہے جس میں شامل ہونے کے بعد سے ان کے ادبی کارناموں کی خبریں ملتی رہتی ہیں ۔ محبت اور تصوف ایسے موضوع پر ان کی دو کتب ’’حاصل محبت ‘‘ اور ’’حاصل لاحاصل‘‘ بھی میری لائبریری کا حصہ ہیں ۔ درجنوں خطرناک اشتہاری مجرموں کو مقابلے میں مارنے والے کرائم فائٹر انسپکٹر ریاض عباس بھی ’’پولیس سب انسپکٹر بھرتی گائیڈ‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھ چکے ہیں ۔ میرا ان سے پہلا تعارف یہی کتاب بنی جو پولیس میں بھرتی ہونے کی خواہش رکھنے والے میرے ایک دوست کے پاس تھی ۔ آئی جی اسلام آباد طارق مسعود یسین بھی جب آر پی او ملتان تھے تو ’’پنجاب پولیس سٹینڈرڈ ہومی سائیڈ انویسٹی گیشن مینول‘‘ کے عنوان سے پولیس ریفارمز پر کتاب لکھ رہے تھے ۔ وہ فوٹوگرافی کا بھی اعلی ذوق رکھتے ہیں ۔ ان سے اسی حوالے سے رابطہ قائم ہوا جو بعد میں اس وجہ سے مزید مضبوط ہو گیا کہ میرے پھوپھا کی ہوم ڈیپارٹمنٹ میں تعیناتی کے دوران دونوں قریبی دوست بن چکے تھے۔ ان کے متعدد واقعات پھوپھا جی کی زبانی معلوم ہوئے۔ سابق آئی جی پولیس چودھری سردار کئی کتابوں کے مصنف اور کالم نگار تھے۔سابق آئی جی آزاد جموں کشمیر ملک خدابخش اعوان نے پولیس نظام پر کتابیں لکھیں۔سابق آئی جی اظہر حسن ندیم کی شاعری کو زمانہ مانتا ہے۔ اسیطرح پولیس میں بے شمار ایسے قابل فخر نام ہیں جو کتاب اور قلم سے جڑے رہے ہیں۔
کالم نگاروں کی ایک تنظیم کا عہدے دار ہونے کی وجہ سے میری ملاقات روزنامہ جنگ اور خبریں میں سنجیدہ و مزاحیہ کالم لکھنے والے طارق بابر صاحب سے ہوئی ۔ طارق بابر تب فیصل آباد جیل کے سپرٹنڈنٹ تھے اور اب ڈی آئی جی جیل خانہ جات کے طور پر فرائض سر انجام سے رہے ہیں ۔ ہماری پہلی ملاقات جیل میں ہوئی تھی جس میں گھنٹوں ادبی موضوعات پر بحث ہوتی رہی ۔ فیصل آباد سے ہی انسپکٹر احمد عدنان طارق بھی درجن بھر کتب لکھ چکے ہیں۔ ان کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا موقع ملا تو حیرت ہوئی کہ بچوں کے ادب پر قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک لکھی گئی ہر کتاب ان کے پاس موجود ہے ۔ ان پر تو مختلف چینلز پیکجز بھی بنا چکے ہیں ۔ روزنامہ جنگ میں عبد الغفار قیصرانی صاحب بھی خوبصورت کالم لکھا کرتے تھے ان سے پہلا تعارف یہی کالم تھے ۔وہ تب ڈی پی او ننکانہ تھے پھر سپیشل برانچ میں آئے اور مختلف پوسٹوں پر تعیناتی کے بعد اب بطور ایس ایس پی ایڈمن ایلیٹ فورس کے ٹریننگ سینٹر پائے جاتے ہیں ۔ ڈی آئی جی ڈسپلن پنجاب شہزادہ سلطان کے بارے میں بھی یہ خوشگوار انکشاف ہواکہ وہ با کمال شاعر ہیں اور انکا مجموعہ کلام آیا چاہتا ہے ۔ ان کی نظمیں محبت کا فلسفہ بیان کرتی ہیں ۔ایس ایس پی ایڈمن لاہور رانا ایاز سلیم کا سوشل میڈیا پر ادب پرور حلقہ احباب ہے اور ان کا شعری انتخاب چونکا دیتا ہے ۔ ادیبوں اور شعرا کی محفلوں میں موقع محل کے مطابق شعر میں جواب دینے کاملکہ حاصل ہے ۔ انہیں پولیس فورس میں بظاہر سخت گیر افسر کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن دوستوں کی محفلوں میں وہ معصوم اورحساس طبیت رکھنے والے ادب پسند انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ سابق آئی جی الطاف قمر تو سینئر کالم نگاروں میں اپنا مضبوط حوالہ بنا چکے ہیں ۔ ان سے جم خانہ اور کاسمو پولیٹین کلب میں متعدد ملاقاتیں رہیں ۔ملکی حالات پر ان کا نقطہ نظر ملکی اور عالمی سیاست کے تناظر میں ہوتا ہے جسے رد کرنا مشکل ہے ۔ اسی طرح چوہنگ ٹریننگ سینٹر میں تعینات ڈی ایس پی ناصر محمود کالم نگاری کے ساتھ ساتھ مزاحیہ مضامین کے حوالے سے اپنی مضبوط پہچان بنا چکے ہیں ۔ اب تو وہ چوہنگ ٹریننگ سینٹر سے پولیس کے ایک خوبصورت میگزین کا بھی اجرا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ پنجاب پولیس میں ہی ایسے متعدد افسران و اہلکار ہیں جو نہ صرف شاعر ، ادیب اور کالم نگار بلکہ باکمال ریسرچر بھی ہیں ۔یہ نہ صرف ملکی حالات کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ عالمی سیاست سے لے کر گلی محلے کے مسائل سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔
مجھے پولیس کے ہر شعبے میں اعلی ادبی ذوق کے حامل ایسے افراد ملے جو لطیف جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ المیہ یہ ہوا کہ سخت ڈیوٹیز اور مسلسل تبادلوں کی وجہ سے ان کا کسی ایک جگہ مضبوط ادبی حلقہ قائم نہ ہو سکا ۔ اس کے باوجود یہ ادیبوں اور صحافیوں میں اپنی پہچان بنا چکے ہیں ۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جیسے ہمارے یہاں ’’خواتین مشاعرہ ‘‘ کے انعقاد کی روایت چل نکلی ہے اگر اسی طرح ان سب پولیس افسر و اہلکاروں کو اکٹھا کر کے ’’ سالانہ ادبی نشست‘‘ کا اہتمام کر دیا جائے تو کیا ہو ؟ یقیناًلطیف جذبات رکھنے والے ان افسروں اور اہلکاروں کا ایک اور چہرہ بھی عوام کے سامنے آنے لگے گا ۔ یہ پولیس کا وہ چہرہ ہے جس کا ہم میں سے اکثر کو علم ہی نہیں ہے ۔ ہمارے میڈیا نے بھی انہیں نظر انداز کئے رکھا اور ان پر کسی قسم کی ڈاکومنٹری اور نیوز پیکجز نہیں بن سکے ۔ ریٹنگ گیم کے تحت ہمیں صر ف مخصوص’’ فلمی تھانیدار‘‘ کا ہی بتایا جاتا رہا ہے حالانکہ پولیس میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں جودوستوں کی محفلوں میں محبت کے قصے بھی لکھتے ہیں اور مجرموں کا تعاقب کرتے وقت جان کی بازی لگا کر انہیں کیفر کردار تک بھی پہنچاتے ہیں ۔ شاید انہی کے بارے میں حضرت اقبال نے کہا تھا کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -