حکومت اسکی جو شہرلاہور کا فاتح ہوگا
حسب روایت نئی قومی حکومت بنانے میں بھی پنجاب مرکزی کردار ادا کرے گا اور پنجاب کی جیت میں لاہور بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔قومی اسمبلی کے لئے نمبر گیم میں پاکستان کی کل 272 عام نشستوں کی تقسیم دیکھئے
پنجاب عام نشستیں 141 :
سندھ : 61
کے پی کے: 39
فاٹا : 12
بلوچستان: عام نشستیں : 16
اسلام آباد : 3
ان ڈائریکٹ سیٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی حکومت بنانے کا اصل مقابلہ پنجاب میں ہو گا۔ باقی تین صوبوں اور اسلام آباد کی کل نشستوں کو اکٹھا کریں تب بھی تعداد 131 بنتی ہے جبکہ صرف پنجاب اکیلے میں 141 عام نشستیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب میں کس جماعت کی زیادہ مضبوط گرفت یا ووٹ بنک ہے۔ بظاہر ابھی تک پیپلز پارٹی مرکز کے کھیل سے باہر نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں بھی تین بڑی جماعتوں کی گرفت نہیں ہے۔ 2013 میں مسلم لیگ ن یہاں سے چند سیٹیں نکال پائی تھی جبکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا یہاں سے کوئی امیدوار اسمبلی میں نہیں پہنچا تھا۔ یہاں سرداری نظام اور مقامی جماعتوں کی ایک ایک دو دو سیٹیں ہوتی ہیں جو الیکشن کے بعد حکومتی جماعت سے اتحاد کر لیتے ہیں۔ اب نمبر گیم میں تین صوبے بچتے ہیں یعنی مرکز کی حکومت کے لئے اصل مقابلہ 256 سیٹوں پر ہو گا۔
مان لیتے ہیں کہ سندھ سے پیپلز پارٹی زیادہ سیٹیں لیجاتی ہے اور کے پی کے سے تحریک انصاف زیادہ سیٹیں جیتتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ کلین سوئپ دونوں کا ہی اپنے اپنے صوبوں میں نہیں ہو گا۔ کے پی کے اور فاٹا کو ملا کر 51 نشستیں ہیں جن میں مذہبی جماعتیں اور اے این پی وغیرہ تحریک انصاف کے ووٹ بنک میں ڈنٹ ڈالیں گی۔ سندھ میں بھی ایم کیو ایم کے دھڑے ، تحریک انصاف اور دیگر مقامی قوم پرست جماعتیں پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں ڈاکا ڈالیں گی۔ یوں مکمل 61 نشستیں پیپلز پارٹی کے ہاتھ نہیں آئیں گی۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کے چند امیدوار تو کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ بھی بہت مشکل مقابلے کے بعد ممکن ہے۔ یہاں کے پی کے اور سندھ کی طرح سیٹیں نکالنے والی مقامی جماعتیں نہیں ہیں البتہ بعض آزاد امیدوار مضبوط ہیں جو اپنی اپنی سیٹ نکال سکتے ہیں۔اسی طرح مذہبی اتحاد خصوصاً تحریک لبیک پاکستان بھی ووٹ بنک متاثر کرے گی۔ ابھی تک پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان اصل مقابلہ ہے۔ جنوبی پنجاب کی متعدد سیٹیں اس وقت ن لیگ کے ہاتھ سے پھسل رہی ہیں، یہاں اگر ٹکٹوں کے معاملے پر روایتی انا اور مقابلہ بازی آڑے آئی تو تحریک انصاف کے امیدواروں کو اندر سے ہروایا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ مسئلہ حل کر لیا گیا تو تحریک انصاف اچھی سیٹیں نکال لے گی ،سینٹرل پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ابھی بھرم قائم ہے۔
لاہور کا مقابلہ سخت ہے۔ یہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافے کے بعد 14 نشستیں ہو گئی ہیں یعنی بلوچستان کی کل 16 نشستوں سے محض دو نشستیں کم ہیں۔ لاہور میں ن لیگ کے متعدد ایسے نام ہیں جو الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن بعض نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار بھی جیتنے کی پوزیشن میں نظر آتے ہیں ، یہاں زیادہ تر سیٹوں پر انتہائی سخت اور دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔
ایاز صادق اور علیم خان ، یاسمین راشد اور مریم نواز ، عمران خان اور سعد رفیق ، خواجہ احمد احسان اور شفقت محمود سمیت دیگر امیدواروں کا دنگل دیکھنے کے قابل ہو گا ۔ان میں سے سعد رفیق اور خواجہ احمد احسان ابھی تک مدمقابل کے سامنے کمزور نظر آ رہے ہیں۔ ایاز صادق ماضی میں عمران خان اور علیم خان کو شکست دے چکے ہیں ، یاسمین راشد اچھی امیدوار ہیں اور اس حلقے سے کافی زیادہ خواتین کے ڈیلیوری کیسز انہوں نے کئے تھے لہذا ان کی خاصی جان پہچان بھی ہے لیکن ماضی میں کلثوم نواز سے شکست کھا چکی ہیں ، یہ حلقہ ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں سے ان کا مریم سے مقابلہ ہے۔ اندرون لاہور کے حلقے ابھی تک ن لیگ کے ہاتھ میں ہیں جبکہ جدید لاہور یا پوش لاہور میں تحریک انصاف کا ووٹ بنک زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ جوہر ٹاؤن اور رائیونڈ کا علاقہ اندرون لاہور میں نہیں لیکن یہاں بھی ن لیگ کے امیدوار زیادہ مضبوط ہیں۔ جوہر ٹاؤن کے ایک حلقے سے البتہ محمود الرشید مضبوط امیدوار ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ لاہور سمیت پنجاب میں مرکز کااصل معرکہ لڑا جائے گا۔ یہاں سے نمبر گیم میں فتح حاصل کرنے والا اصل فاتح ہو گا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔