رمضان کے مہینے کی عظمت اور تقویٰ

رمضان کے مہینے کی عظمت اور تقویٰ
رمضان کے مہینے کی عظمت اور تقویٰ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر :پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق 

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے، اس پر عمل اور بھرپور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:

ترجمہ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاءؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی"۔(البقرہ2:183)

صوم کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی تعمیل کی جائے۔

رمضان کے مہینے کی عظمت
رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)

قرآن اور رمضان
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (بخاری، مسلم) 

حضرت عبداللہ ؓبن عمرو کی روایت کردہ حدیث میں ہے: ’’روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! اور قرآن یہ کہے گا کہ میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے) سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا‘‘۔ پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔

روزے کی حقیقت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت بیان کی گئی ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے فرمایا:" جس شخص نے روزے کی حالت میں بے ہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ، بہتان ، تہمت ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے"۔ ( بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ" کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا"۔(دارمی ،  مشکوٰۃ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے (کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتاہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا)، پس جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے ، نہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تودل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس میں مانع ہے)"۔ (بخاری ومسلم ، مشکوٰۃ)

روزہ ڈھال ہے جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو۔(نسائی)

مندرجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزہ کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے۔

روزہ گذشتہ گناہوں کا کفارہ
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ یعنی کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کےروزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔

حقیقی روزہ : وہ روزہ ہے جس میں آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے اور یہی ان اعضا کا روزہ ہے اور یہی حقیقی روزہ ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی امید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔
کان کا روزہ: حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔
زبان کا روزہ: زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’روزہ ڈھال ہے ، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے ، نہ جہالت کا کوئی کا م کرے ، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔( بخاری)

منہ اور پیٹ کا روزہ: افطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘ (احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم)۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام پینےیا کھانے میں مشغول ہو جائے۔
افطار کے وقت روزہ دار حالتِ خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے۔ اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔

دل کا روزہ: دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے ۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو، وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔ 
رمضان کی آخری شب مغفرت کا پروانہ :  ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ’’ بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمت کی رمضان کی آخری رات میں۔ عر ض کیا گیا: یا رسولؐ اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:نہیں۔ بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘(مسنداحمد)، یعنی جب وہ پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اُجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے ۔ ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔
اللہ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائےا ور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائےاور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ آمین یا ربّ العالمین!

نوٹ : ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں