قائد اعظمؒ  کا سبق یاد کریں 

قائد اعظمؒ  کا سبق یاد کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بانی ئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا 148واں یوم پیدائش روایتی جوش و جذبے سے منایا گیا،اِس موقع پر صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے خصوصی پیغامات بھی جاری کئے۔دونوں رہنماؤں نے بانی ئ پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظمؒ نایاب صلاحیتوں کے حامل رہنماء تھے جو اتحاد، انصاف اور مساوات پر مکمل یقین رکھتے تھے، اُن کی زندگی ایک روشن خیال اُستاد، دور اندیش وکیل، اصول پسند اور ثابت قدم سیاستدان اور کرشماتی رہنماء کی حیثیت سے بے شمار لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کا اپنے پیغام میں مزید کہنا تھا پاکستان کا آئین تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے،چاہے وہ کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی ایسے ہی پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں تمام مذاہب کے لوگ مساوی شہری کی حیثیت سے ترقی کر سکیں۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قائداعظمؒ کا سفر عزم کی طاقت، محنت اور لگن کے ذریعے خوابوں کی تعبیر کا ثبوت ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان تمام مذہبی برادریوں کے حقوق کے تحفظ اور باہمی احترام اور افہام و تفہیم کی فضاء کو فروغ دینے کے لئے پُرعزم ہے، وہ اِس بات کو یقینی بناتے رہیں گے کہ تمام مذاہب کے لوگ آزادانہ طور پر اپنے عقائد پر عمل کر سکیں اور ہماری قوم کی اجتماعی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔صدرِ مملکت اور وزیراعظم دونوں نے پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے مسیحی بھائیوں کو بھی  مبارکباد پیش کی۔ قائداعظم محمد علی جناح  ؒ کے یومِ پیدائش پر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، تینوں سروسز چیفس اور افواجِ پاکستان نے بابائے قوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مسلح افواج قائداعظمؒ کے لازوال ویژن اور بے مثال قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے،بابائے قوم کی انتھک کوششوں نے عوام کو متحد کر کے خودمختار اور آزاد پاکستان کی بنیاد رکھی،یہ قائد کے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے رہنماء اصولوں کے لئے غیر متزلزل وابستگی کی تجدید کا دن ہے۔اِس دن کا آغاز وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں توپوں کی سلامی کے ساتھ کیا گیا، سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر مختلف اداروں نے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جس میں قائد کے افکار کو یاد کیا گیا اور پاکستان کو اُن کے خواب کا عکاس بنانے کے عزم کا اعادہ  بھی کیا گیا۔ 

 کراچی میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی پُروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے دستے نے گارڈز کے فرائض سنبھالے اور بابائے قوم کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ کابینہ کے ارکان کے ہمراہ مزارِ قائدؒ پر حاضری دی۔ 

بانی ئ پاکستان قائد اعظمؒ نے مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کا نعرہ بلند کیا اور پھر دِل و جان سے اس کام میں جُت گئے،انہوں نے احساس دلایا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور اِنہیں اپنے لئے الگ ملک درکار ہے جہاں وہ آزادی سے سانس لے سکیں، اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں، ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہو، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتیں بھی محفوظ ہوں۔ ملک تو حاصل ہو گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ قوم ہجوم کی شکل اختیار کرتی چلی گئی،آج ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں بس لوگوں کی بھیڑ ہے، کوئی نظم و ضبط نہیں ہے، قواعد و ضوابط نہیں ہیں، قانون کی پاسداری نہیں ہے۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ قائداعظمؒ کی طرف سے دیا جانا والا اتحاد، ایمان اور تنظیم کا سبق پاکستانیوں کے لئے مشعل ِ راہ ہے اور آج اس کو نئے سرے سے پڑھنے کی ازحد ضرورت ہے۔اِس وقت قوم تقسیم کا شکار ہے، عدم برداشت ہے، ہر کوئی خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، سیاسی عدم استحکام ہے۔اہل ِ سیاست ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت قبول کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ عوام کے نمائندے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایوانوں میں تو پہنچ گئے ہیں لیکن عام لوگوں کی اُمیدوں پر پورا اُترنے کے لئے اُنہیں بہت سی کسوٹیوں سے گزرنا پڑے گا، عوام کا اعتماد متزلزل ہے اسے بحال کرنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑے گی۔سیاستدان قائد اعظمؒ کا جان نشین ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کیا کبھی اُنہوں نے بانی ئ پاکستان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا ہے،وہ تو بااصول، باکردار، باصلاحیت، بردبار اور معاملہ فہم رہنماء تھے،انہوں نے تو سب کو جوڑ کر رکھنے کا پیغام دیا، مل کر اپنی قوت بڑھانے کی بات کی لیکن یہاں تو سیاسی رہنماء ہر وقت احتجاج اور توڑ پھوڑ کا راگ الاپ رہے  ہیں، لوگوں کو پراپیگنڈے کے سر پر تقسیم کر رہے ہیں اور اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، کوئی اصول ہے نہ کوئی ضابطہ۔  اہل ِ سیاست نے اپنے رویوں سے اتنی بے یقینی پیدا کر دی ہے کہ ملک اور بیرون ملک ایک ہی بحث جاری ہے کہ پاکستان کا کیا ہو گا، اس کا کیا بنے گا، حکومت کتنا عرصہ چلے گی۔اس بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اربابِ اختیار کو اپنے گریبانوں   میں جھانکنے کی ضرورت ہے، ہر ایک کو اپنی اپنی آئینی و قانونی حدود پہنچانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان 1971ء  میں ضد اور اَنا کا نتیجہ بھگت چکا ہے،اس کے بنیادی کرداروں کے انجام سے بھی سب اچھی طرح واقف ہیں، سبق سیکھنے کے لئے وہ کافی ہے۔

پوری قوم کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں،یہ ہماری پہچان ہے،جو دھبے ہم نے اپنی شناخت پر خود لگائے ہیں اُن کو دھونے کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہے۔ابھی بھی وقت ہے، قائد اعظمؒ کی تعلیمات، اُن کے افکار اور اُن کے پیغامات کو سامنے رکھ کر اپنے لئے منزل کا تعین کریں،اُن کے اصولوں سے رہنمائی حاصل کریں۔ قائدؒ  کا پاکستان بنانے کی ذمہ داری اہل ِ اختیار و عوام دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے، ہر کسی کو اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری، محنت، لگن اور خلوصِ نیت کے ساتھ کرنا ہے، صرف اِسی صورت میں ایک بار پھر پاکستانی قوم بن کر اُبھر سکتے ہیں اور روشن مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ 

مزید :

رائے -اداریہ -