پاک افغان تعلقات

پاک افغان تعلقات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستانی دفترخارجہ نے شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش ِ نظر افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کی تصدیق کی ہے۔ دفترخارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو میڈیا بریفنگ کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ انٹیلی جنس بیسڈ یہ آپریشن پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش ِ نظر کیا گیا تھا، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں۔ اُنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے،پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان حکومت کی جانب سے افغانستان میں حملے  کے بعد پہلا باضابطہ بیان تھا۔یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات مسلسل سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے کافی عرصے سے کشیدہ ہیں، جنوبی وزیرستان میں رواں ماہ 21 تاریخ کو بھی ایک فوجی چوکی پر حملہ ہوا تھا جس میں 16 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔یہ حملہ پاکستانی حکام کے مطابق سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں نے کیا تھا۔پاکستان متعدد بار افغانستان سے مطالبہ کرچکا  ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے جو پاکستان میں حملوں کے لئے افغان سرزمین استعمال کرتی ہے تاہم کابل نے ہمیشہ اِن الزامات کی تردیدکی ہے،وہاں سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان نے پڑوسی ملک میں فضائی حملے کیے جن میں کئی مشتبہ دہشت گرد ہلاک اور زخمی ہوئے۔سکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ منگل کو رات گئے افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے اُن چار کیمپوں پر بمباری کی گئی جہاں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد رہائش پذیر تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی لڑاکا طیاروں نے افغانی ضلع برنال کے علاقے مرغا اور لامان میں ٹی ٹی پی کے اُن کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا جو شیر زمان عرف مخلص یار، کمانڈر ابو حمزہ، کمانڈر اختر محمد اور ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ کے سربراہ عمر میڈیا کے زیر استعمال تھا۔اِن حملوں کے بعد افغان طالبان کی حکومت نے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے پاکستان کوپیغام دیا تھا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران امارت اسلامیہ کے لئے ”سرخ لکیر“ ہے۔ افغان وزارت ِدفاع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر ایک پوسٹ میں پاکستانی فورسز کی جانب سے کیے گئے حملے کی رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کے علاوہ کئی بچے اور دیگر شہری شامل ہیں تاہم  حملے کے بعد سامنے آنے والی ویڈیوز سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حملے جن کیمپوں پر کیے گئے وہ رہائشی آبادی سے دور تھے، اِن میں کسی شہری کے موجود ہونے کا کوئی جواز نہیں  تھا۔ افغان وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک اور بیان میں کہا گیا تھا کہ اُس نے حملے کے اگلے روز پاکستان کے ناظم الامور کو طلب کیا اور ڈیورنڈ لائن کے دوسری جانب صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں پاکستانی فضائیہ کی بمباری پر احتجاج ریکارڈ کرایا اور احتجاجی مراسلہ بھی دیا۔واضح رہے کہ پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق کی قیادت میں ایک وفد کابل میں موجود ہے جو افغان عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کر چکا ہے جس میں افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروہوں کے بارے میں پاکستان کے سکیورٹی خدشات سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ پاکستان کے خصوصی سفیر نے بمباری کے واقعے سے اپنے دورہ کابل پر کوئی اثر نہ پڑنے کا مثبت اشارہ دیتے ہوئے بدھ کو نائب وزیراعظم مولوی محمد کبیر اور وزیر تجارت نورالدین عزیزی سے ملاقات بھی کی اور دونوں ممالک کے درمیان اَمن، سلامتی، معیشت اور تجارت سے متعلق دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔

پکتیکا پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی ڈیورنڈ لائن کے ساتھ افغانستان کا مشرقی صوبہ ہے جو پاکستان کے تین اضلاع سے متصل ہے، یہ صوبہ بلوچستان کے ضلع ژوب اور صوبہ خیبرپختونخوا کے دو اضلاع جنوبی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ہے۔ رواں برس مارچ میں بھی پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی تھی جس میں حافظ گْل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، اس کا کہنا ہے کہ چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے اس لئے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے،اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان سینٹر فار کانفلیکٹ اور سکیورٹی کے مطابق رواں برس اب تک سب سے زیادہ حملے نومبر میں ہوئے ہیں جن میں 240 افراد ہلاک ہوئے  اور اِن میں سے قریباً 70 سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔افغان حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ٹی ٹی پی اُن کی سرزمین استعمال نہیں کر رہی لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران متعدد واقعات ایسے ہیں جن میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستانی چوکیوں پر حملہ کیا اور پھر واپس افغانستان لوٹ گئے اور اِن واقعات کے ثبوت پاکستانی حکام نہ صرف افغان حکومت کو دیتے چلے آ رہے ہیں بلکہ بعض بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر بھی یہ ثبوت رکھ چکا ہے۔ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے دور میں جب پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے تو وہ تو کابل ہی میں ہوئے تھے۔ 

اب افغان حکومت پاکستان کے حملے پر سیخ پا تو ہے،شہریوں پر حملے کا پراپیگنڈہ بھی کر رہی ہے لیکن یہ سب اس کی بے اعتنائی کا نتیجہ ہے۔ہمسایہ اور اسلامی برادر ملک ہونے کے ناتے اسے پاکستانی حکام کی شکایات پر توجہ کرنی چاہئے تھی،پاکستان نے ہمیشہ مشکل میں اس کا ساتھ دیا، سالہا سال تک افغان شہریوں کو یہاں پناہ دی،اب اسے بھی پاکستان میں معاملات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے۔ افغانستان کو کسی بھی دوسرے کی باتوں میں آ کر کسی کو بھی پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یہ بات درست ہے کہ  پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا  ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ جذبات کو ایک طرف رکھ کر ہوش مندی سے کام لیا جا ئے، دونوں ممالک مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں،صبر وتحمل سے کام لیں۔خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہو گی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے،یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -