برطانیہ۔5
زین عباس نے سنٹرل لندن میں واقع پاکستان ہائی کمیشن کے دفتر کا کوڈ گاڑی کے میپ(MAP) میں ڈالا تو سکرین پر مسافت کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹہ ظاہر ہو گیا۔
میں نے اس سفر میں زین عباس سے کم عمری میں کاروباری اور سماجی سطح پر کامیابی کا راز معلوم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری درخواست پر زین عباس نے اپنی کہانی سنانا شروع کی۔
ان کے والد سرکاری ملازم تھے وہ اکلوتی نرینہ اولاد ہیں۔ ان سے بڑی چار بہنیں ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور گولڈ میڈلسٹ ہیں اور پاکستان کی ممتاز جامعات میں پڑھا رہی ہیں۔ وہ2010ء میں چارٹرڈ اکاؤنٹینسی (CA) کی تعلیم کے لیے لندن آئے۔ برطانیہ کے ممتاز تعلیمی ادارے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی(Oxford Brookes University) سے سی اے(CA) کرنے کے بعد بزنس اینڈ مینجمنٹ میں ماسٹرز کی تعلیم مکمل کی کیونکہ ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا لہٰذا اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی عارضی ملازمتیں کیں۔ بعض اوقات سخت مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔زین اپنی کامیابی کو انہیں مشقت کے دنوں کا ثمر قرار دیتے ہیں اور خود کو اس شعر کی عملی تعبیر سمجھتے ہیں۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار عقیق کٹا تب نگیں ہوا
زمانہ طالبعلمی میں ایک تقریب میں ان کی ملاقات معروف تربیت کار عارف انیس سے ہوئی انہوں نے انہیں ستاروں پر کمند ڈالنے کا جذبہ دیا۔ زین نے معمولی نوکریاں کرنے کی بجائے ذاتی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی روز سوچ بچار کے بعد ایک دوست کے ساتھ مل کربرطانوی طلباء و طالبات کو جنرل سرٹیفیکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن (GCSE)کے امتحانات کی تیاری کروانے کے لیے ایک ٹیوشن سنٹر قائم کیا۔دونوں دوستوں کی خلوصِ نیت اور محنت سے یہ ٹیوشن سنٹر روز بروز ترقی کرتا گیا۔
اس ٹیوشن سنٹرکو کامیاب بنانے کی جدوجہد میں زین عباس کو ایک”پری سکول“(Preschool)بنانے کاآئیڈیا ملا۔ برطانیہ میں والدین بچوں کو ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے”پری سکول“ (Preschool)میں داخل کروا دیتے ہیں۔ انہیں نرسری سکول یا ڈے کئیر بھی کہا جاتا ہے۔ جو میاں بیوی ملازمت کر رہے ہوتے ہیں وہ اپنے چھوٹے بچے ان ڈے کئیر سنٹرز میں چھوڑ دیتے ہیں۔
ڈے کئیرز میں بچوں کی تربیت، دیکھ بھال اور ان سنٹرزکو چلانے کے لیے خصوصی کورسز کرنا ضروری ہیں۔ زین عباس نے یہ کورسز مکمل کئے اور اپنے حصے کے منافع سے ایک ڈے کئیر سنٹر شروع کردیا۔ اس کاروبار میں بھی قدرت نے ہاتھ تھام لیا۔
زین عباس کو عملی زندگی شروع کئے محض بارہ سال ہوئے ہیں لیکن اس کم عرصے میں صفر سے آغاز کرنے کے بعد آج ان کے کاروبار کی مالیت پاکستانی آٹھ ارب روپے کے برابر ہے۔وہ چار ڈے کئیر سنٹرز، ایک ترکش ریسٹورنٹ اور اسکے علاوہ دیگر کاروبار میں شراکت دار ہیں کاروباری ترقی کی بنیاد پر انہیں برطانیہ میں کئی مستنداداروں کی طرف سے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔جن میں برائن ٹریسی ایوارڈ آف ایکسیلنس(Brian Tracy Awards of Excellence)، رائل سوسائٹی آف آرٹس(Royal Society of Arts) کی فیلوشپ اور گلوبل مین میگزین(Global Man Magazine) کی طرف سے سال کی بہترین کاروباری شخصیت (Young Entrepreneur of the Year) کا ایوارڈ قابلِ ذکر ہے۔
زین عباس کاروباری مصروفیت کے ساتھ”اسلام ٹی وی“پر ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے معروف فلاحی ادارے ”اخوت“ کے برطانیہ میں رکن بھی ہیں اور ”اخوت برطانیہ“ کے امور چلانے میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔
گاڑی بکنگھم پیلس(Buckingham Palace) کی دائیں سٹرک سے ہو کر پچھلے حصے میں گئی تو زین مجھے بتانے لگے کہ یہ سٹرک عام عوام کے لیے کچھ عرصہ قبل کھولی گئی ہے۔
اب بکنگھم پیلس(Buckingham Palace) برطانیہ کے شای خاندان کی رسمی رہائش گاہ ہے اس کی بنیاد 1703ء میں رکھی گئی تھی جب ہنری فلپس(Henry Phillips) نے اس جگہ پر اپنا گھر بنایا۔1809ء میں شاہی خاندان نے بکنگھم ہاؤس(Buckingham House) خرید لیا اور 1820ء میں بادشاہ جارج چہارم (George iv) نے اسے توسیع دی اور شاہی محل کا درجہ دے دیا۔
ملکہ وکٹوریا (Queen Victoria)کے دور میں بکنگھم پیلس کو برطانوی بادشاہت کا مرکزی محل قرار دیا گیا۔ ملکہ وکٹوریا نے اس محل میں مستقل رہائش اختیار کی اور اسے شاہی خاندان کا مرکزی دفتر بنا دیاگیا۔
زین عباس سے اس کی جہدِ مسلسل اور کامیابیوں کی کہانی سننے کا سلسلہ جاری تھا کہ جناب علی نواز ملک منسٹرپریس(Minister Press) کی کال آگئی۔
میں نے گاڑی کے میپ(MAP) کو دیکھ کر انہیں بتایا کہ ہم پانچ منٹ کی مسافت پر ہیں۔ سنٹرل لندن کے اس اہم ترین علاقے کی ہر عمارت اپنی پہچان لیے ہوئے تھی۔ اسی علاقے میں اشرافیہ کے کلب، نہایت مہنگے ریسٹورنٹس اور رہائش گاہیں ہیں۔
پاکستان کا ہائی کمیشن لندن کے ویسٹ منسٹر(Westminster) کے علاقے بیلگریویا (Belgravia) کے لونڈس سکوائر(Lowndes Square) میں واقع ہے۔ اس کے اردگرد دیگر ممالک کے سفارتخانے اور اہم دفاتر ہیں۔ خوش قسمتی سے سفارت خانہ کے قریب گاڑی کی پارکنگ مل گئی۔سفارت خانے کے دروازے پر جناب علی نواز ملک کا ایک ماتحت ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھا۔
سفارت خانے کی چھوٹی سی لفٹ میں ہم دوسری منزل پر منسٹر پریس(Minister Press) کے دفتر پہنچے تو جناب علی نواز ملک نے پُر جوش خوش آمدید کہا۔
علی نواز ملک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے فارغ التحصیل ہیں۔ سی ایس ایس کرکے انفارمیشن گروپ کا حصہ بنے۔ اپنے کیرئیر کے دوران انہیں انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے مختلف عہدوں پرذمہ داریاں نبھانے کا موقع ملا۔ سفارت خانہ پاکستان لندن میں منسٹر پریس(پریس اتاشی) تعینات ہونے سے قبل وہ پنجاب میں سیکرٹری انفارمیشن و کلچر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
چائے کے دوران برطانیہ میں پی ٹی آئی کے سپورٹرز کے رویے اور سفارت خانے کو درپیش چیلنجز پر گفتگو رہی۔
ایک رات قبل سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی گاڑی پر پی ٹی آئی کے سپورٹرز کا حملہ ہو چکا تھا۔ جس سے وہ اور ڈاکٹرمحمد فیصل ہائی کمیشن خاصے دباؤ میں تھے۔
جناب علی نواز ملک سے ان کے ہم جماعت صحافی دوستوں اور پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے گفتگو جاری تھی کہ ڈاکٹر محمد فیصل کی طرف سے بلاوا آگیا۔