کھربوں روپے کی ٹیکس چوری

کھربوں روپے کی ٹیکس چوری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیئرمین فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) راشد محمود لنگڑیال نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ و ریونیو علی پرویز ملک کے ساتھ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والے ٹاپ پانچ فیصد افراد 16کھرب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں اِسی لئے حکومت کا ٹیکس وصولی فوکس ان پر ہے۔اِس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد قریباً 33لاکھ  بنتی ہے لیکن اِن میں سے صرف چھ لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں جبکہ باقی 27لاکھ لوگ سرے سے گوشوارے جمع ہی نہیں کراتے اور یا پھر اپنی کیٹیگری سے کم درجے کے گوشوارے فائل کرتے ہیں، ایسے افراد کی ٹیکس کی ذمہ داری 1.6کھرب روپے سے زائد ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس قوانین میں جو ترامیم کی جا رہی ہیں اِس سے بقیہ 95 فیصد لوگ متاثر نہیں ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال حکومت کا ٹیکس گیپ 7.1 کھرب روپے ہو گا جو گزشتہ سال 6.2 کھرب روپے تھا،انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک لاکھ  90 ہزارنان فائلرز کو چھ عوامل کی بنیاد پر ترجیح دی گئی ہے، ان میں وہ افراد شامل ہیں جو سالانہ 1.3 ملین روپے بینک منافع کماتے ہیں، ایک کروڑ روپے یا اِس سے زائد کی تین  یا اُس سے زیادہ گاڑیوں کے مالک ہیں، ایک کروڑ 60لاکھ روپے یا اِس سے زائد مالیت کی دو یا اِس سے زیادہ جائیداد کی خرید و فروخت کرتے ہیں، سالانہ 35 لاکھ روپے یا اِس سے زیادہ رقم نکلواتے ہیں یا  بھاری رقوم جمع کراتے ہیں اور کریڈٹ کارڈ رکھتے ہیں۔ ایسے مالدار افراد سے باآسانی 50 سے 60 ارب روپے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ٹیکس قوانین کو مجرمانہ قوانین کے طور پر نافذ نہیں کیا جا سکتا اِس لیے ایک طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی اِسی بات پر زور دیا کہ چھ لاکھ 70ہزار افراد ایسے ہیں جن کے پاس دولت کی فراوانی ہے، گاڑیوں اور آمدن سمیت سب کچھ ہے لیکن وہ ٹیکس چوری کرتے ہیں، اخراجات کے باوجود ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کی زحمت نہیں کرتے، ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی نے زرعی آمدنی ٹیکس قانون منظور کیا ہے جبکہ دیگر صوبے مختلف مراحل پر پیشرفت کر رہے ہیں، ایف بی آر نے ٹیکس آمدن میں  29 فیصد اضافہ کیا لیکن موجودہ مالی سال کے لیے ہدف 40فیصد کی بلند سطح پر مقرر کیا گیا تھا۔دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے ٹیکس قوانین ترمیمی بل 2024ء کی منظوری دے دی جس کے مطابق  نااہل ٹیکس فائلر بڑی گاڑیاں،جائیداد یا  بنگلے نہیں خرید سکیں گے جبکہ اُن پر بینک اکاؤنٹ کھولنے اور سٹاک مارکیٹ کے حصص کی خریداری پر بھی پابندی ہوگی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پی آر اے ایل) کی تنظیم نو کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے، یہ بنیادی طور پرایف بی آر کے ریونیو آٹومیشن فنکشن میں مدد دینے والی کمپنی ہے، دوسرے الفاظ میں ایف بی آر کا اندرونی آئی ٹی کا نظام تھا جو شہریوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے گوشواروں کو ڈیجیٹلائز کرنے اور دیگر اداروں خاص طور پر صوبائی ریونیو اتھارٹیوں کے ساتھ کام کرتا تھا  لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اِسے جدید تقاضوں اور حالیہ تکنیکی پیشرفت کے مطابق اپ ڈیٹ نہیں کیا جا سکاحالانکہ اِس کا کردار انتہائی اہم تھا۔  

اس وقت حکومت کو ٹیکس محاصل کے طے کردہ اہداف میں کمی کا سامنا ہے، اعلیٰ حکام تسلیم کرتے ہیں کہ قلیل مدت میں ایف بی آر کو ریونیو کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے تاہم وہ پُر اُمید ہیں کہ وزیر ِخزانہ  اور اُن کی ٹیم ملکی معیشت میں آنے والی بہتری  سے محاصل میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور مالی سال کی آخر ی سہ ماہی تک صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ حکومتی معاشی ٹیم سمجھتی ہے کہ ٹیکس محاصل کے معاملے پر وہ آئی ایم ایف کو حقائق کی روشنی میں قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کے مشن نے ناتھن پورٹر کی قیادت میں 12 سے 15نومبر 2024ء تک پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ دورے کے اختتام پرمشن چیف نے بیان جاری کیا تھا کہ اُنہوں نے حکام کے ساتھ ان کی اقتصادی پالیسی اور کمزوریوں کو کم کرنے اور مضبوط اور پائیدار ترقی کی بنیاد رکھنے کے لیے اصلاحات کی کوششوں پر تعمیری بات چیت کی، صوبوں کو زیادہ سماجی اور ترقیاتی ذمہ داریاں منتقل کرنے کی محتاط مالیاتی پالیسیوں، غیر استعمال شدہ ٹیکس اڈوں سے محصولات کو متحرک کرنے کی ضرورت سے اتفاق کیا، ایف بی آر کی عملداری کو بحال کرنے کے لیے ساختی توانائی کی اصلاحات اور تعمیری کوششیں بہت اہم ہیں،معیشت میں ریاستی مداخلت کم کرنے اور مسابقت بڑھانے کے لیے پاکستان کو اقدامات کرنا چاہئیں جس سے ایک متحرک نجی شعبے کی ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے۔ واضح رہے کہ  2024ء کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کو دیے گئے پروگرام کے پہلے جائزے سے منسلک آئندہ مشن کی آمد2025ء کی پہلی سہ ماہی میں متوقع ہے۔پاکستان نے آئندہ مشن کی پاکستان آمد سے قبل آئی ایم ایف کی شرائط پر مطلوبہ عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے، حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اُس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ معاشی ٹیم کو یقینی بنانا ہے کہ اگلی قسط کے حصول میں کسی قسم کا مسئلہ نہ آئے،بصورت دیگر معیشت پر شدید دباؤ آ سکتا ہے جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے دیوالیہ ہوتی معیشت کو سنبھال تو لیا ہے لیکن ابھی وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوئی ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کی اِس بات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ صرف پانچ فیصد افراد 16کھرب روپے کی ٹیکس چوری کر رہے ہیں، یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ مالدار ہیں، صاحب ِ حیثیت ہیں، جو تمام تر آسائشوں کا لطف اُٹھا رہے ہیں، ان کے پاس طاقت ہے، وہ بااثر ہیں اور ٹیکس چور بھی ہیں۔ اِسی لئے ٹیکس کا سارا ملبہ تنخواہ دار طبقے اور عام آدمی پر ڈال دیا گیا ہے جو اپنی استطاعت سے بڑھ کر ٹیکس کٹوانے پر مجبور ہیں، مہنگائی کا شکار بھی وہی ہیں،قانون بھی ان ہی کے لیے سخت ہے اور باقی ساری پریشانیاں بھی ان ہی کے لیے ہیں۔اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو گی؟ حکومت اور ایف بی آر حکام جو انکشافات تو کر رہے ہیں لیکن اس ٹیکس چوری کو روکنے کا فوری بندوبست کریں اورذمہ داران کو منطقی انجام تک بھی پہنچائیں۔ٹیکس چوروں کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جانی چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -