ای چالان - ’’کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے ‘‘
ہمارے یہاں اکثر لوگوں کو پولیس خصوصاً ٹریفک پولیس سے شکایت رہتی ہے ۔ یہ شکایات بھی عجیب سی ہوتی ہیں ۔ اگر ٹریفک جام ہو تو کہا جاتا ہے کہ ٹریفک وارڈنز سڑک کے کنارے کھڑے رہتے ہیں اور کسی کا چالان ہی نہیں کرتے لہذا لوگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ اگر چالان ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ وارڈنز نے ناجائز چالان کیا ہے اور ان کا مقصد محض ریکارڈ مکمل کرنا تھا۔ وارڈنز چالان کریں تب بھی انہیں ہی برا بھلا کہا جاتا ہے اور اگر وہ چالان نہ کریں تب بھی انہی کے سر الزام دھرا جاتا ہے ۔
ایک تیسری صورت یہ ہے کہ وہ چالان نہ کریں اور محض ٹریفک کنٹرول کریں ۔ ایسی صورت حال میں’’ مہذب ‘‘شہریوں کا جو رویہ نظر آتا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ ٹریفک وارڈنز کے سامنے تیزی سے بائیک بھگاتے ہوئے اشارہ توڑنا نوجوانوں کے لئے فیشن بن جاتا ہے ۔ ان حالات میں ٹریفک وارڈنز کا یہی سوال تھا کہ وہ کیسے ٹریفک کنٹرول کریں ؟ دوسری جانب شہری ہر صورت میں خود کو سچا قرار دیتے ہیں ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کئی سالوں سے جاری یہ ’’جھگڑا ‘‘ اب پنجاب میں ختم ہوا چاہتا ہے ۔
پنجاب پولیس سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت ایک ایسا نظام یہاں متعارف کرا رہی ہے جو اس سے قبل ترقی یافتہ ممالک میں ہی نظر آتا تھا ۔ سیف سٹی کے تحت پنجاب کی شاہراہوں پر کیمرے لگانے کا منصوبہ شروع ہو چکا ہے جس کے پہلے مرحلہ میں لاہور کی سڑکوں پر کیمرے لگانے کا عمل تقریباً مکمل ہو گیا ہے ۔ ان کیمروں کی مدد سے شہر بھر کی نقل و حمل کو ایک مرکز پر مانیٹر کیا جا رہا ہے ۔ اس سے جہاں سکیورٹی کے معاملات حل ہوں گے اور مشکوک افراد کے لئے چھپنا ممکن نہ رہے گا وہیں اس سسٹم کے ذریعے ٹریفک کے معاملات کو بھی مانیٹر کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ اب جو گاڑی یا موٹر سائیکل ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرے گی، سڑک پر لگے جدید خودکار کیمرے اس کی تصاویر محفوظ کر لیں گے۔ ان تصاویر میں غلطی کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کا چہرہ اور گاڑی کا نمبر بھی شامل ہوں گے ۔ یہ تصاویر چالان کے ساتھ منسلک ہوں گی ۔ خودکار سسٹم کے تحت ہونے والا یہ چالان اسی سسٹم کے تحت گاڑی کے مالک کے گھر بھیج دیا جائے گا ۔سوال یہ تھا کہ اگر کوئی شخص چالان ہی جمع نہ کروائے تو کیا ہو گا ؟ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ چالان گاڑی سے منسلک ریکارڈ میں جمع ہوتا جائے گا اور گاڑی کے مالک کے ڈیٹا کا حصہ بن جائے گا ۔ لائسنس سے لے کر گاڑی کی خرید و فروخت تک کے مراحل اس وقت تک کلیئر نہ ہو سکیں گے جب تک گاڑی کا مالک تمام تر جرمانہ ادا نہیں کر دیتا ۔ اس سلسلے میں قوانین اور طریقہ کار بھی بن چکا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ کوئی بھی نظام ایک دن میں درست نہیں ہو سکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر یہ سسٹم کامیاب ہو گیا تو خالی سڑک پر بھی لوگ مہذب انداز میں ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اشارے پر کھڑے نظر آئیں گے کیونکہ اب قوانین توڑنے پر نہ تو وہ کسی سے بحث کر سکیں گے اور نہ ہی کسی با اثر شخصیت کا سہارا لے سکیں گے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نظام کے مکمل طور پر فعال ہونے پر اہم شخصیات کو بھی قوا نین توڑنے پر سزا ملے گی کیونکہ کیمرے کو اپنے کام سے نہ تو کوئی سفارش روک سکتی ہے اور نہ ہی وہ کسی اہم شخصیت کو پہچانتا ہے ۔
سیف سٹی کے اس منصوبے کے نتائج لاہور میں پنجاب اسمبلی کے قریب ہونے والے خودکش حملہ کے بعد بھی سامنے آ رہے ہیں ۔ ہمارا خیال تھا کہ اس قدر شدید بم دھماکے کے بعد کیمرے بھی مکمل نہیں تو جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت لگائے گئے ان کیمروں کی ریکارڈنگ کی مدد سے ہی خودکش حملہ آور کے سہولت کار کی تصاویر حاصل کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں حوصلہ افزا نتائج مل رہے ہیں ۔ خودکش حملہ آور کے سہولت کار کا فوراً ہی علم ہو جانا یقیناً سیف سٹی پراجیکٹ کی بڑی کامیابی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیمروں کا یہ جال مکمل طور پر پھیلایا جائے تاکہ کیمرہ در کیمرہ ایسے لوگوں پر نظر رکھی جا سکے اور ان کے ٹھکانے کا فوری طور پر علم ہو سکے ۔
سیف سٹی کے اس منصوبے سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں لیکن ہمارے خیال میں اسے مکمل طور پر فعال ہونے میں کچھ وقت لگے گا اور اس کے لئے مزید بجٹ بھی درکار ہو گا ۔ جس دن شہر در شہر پھیلنے والا یہ سسٹم پورے پنجاب میں قائم ہو گیا اس دن پنجاب نہ صرف جرائم سے محفوظ ہوجائے گا بلکہ ٹریفک حادثات میں بھی نمایاں کمی آئے گی ۔ محفوظ پاکستان ہمارا خواب ہے ۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ اب پنجاب پولیس کی جانب سے آئی ٹی کی جانب شروع ہونے والا یہ سفر ہمیں کئی امیدیں اور خواب دے چکا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے جدید منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور حکومت بھی اس سلسلے میں خصوصی بجٹ مختص کرے ۔ یہ منصوبے دیگر صوبوں کو بھی اپنانے چاہئے کیونکہ عام شہری کے تحفظ کے لئے شروع ہونے والے ایسے منصوبے کسی ایک جماعت کے نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے منصوبے ہوتے ہیں ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔