”آپریشن استحکام پاکستان“ اتفاق رائے ضروری!
اہل پاکستان نے دہشت گردی اور بدامنی کی ہولناک کہانیاں سنی نہیں ہیں،بلکہ عملاً خود دیکھی ہیں۔ بازار جانا دور کی بات مساجد میں جانا بھی ناممکن ہو گیا تھا، زمینی حقائق بتاتے ہیں یہ سب کچھ ایک علاقے یا ایک صوبے تک محدود نہیں تھا، کوئی ادارہ اس دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھا۔
دہشت گردوں نے ہمارے سکولوں میں کیا کِیا، مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی، ریاستی اداروں،پولیس کو جس انداز میں نشانہ بنایا گیا اس کا الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، پھر قوم کے مطالبے پر پاک فوج نے ضربِ عضب، راہِ نجات آپریشن کا فیصلہ کیا، قوم کا بچہ بچہ گواہ ہے نوگو ایریاز میں ریاستی رٹ چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کو ختم کیا گیا، قومی سلامتی کے اداروں کا تحفظ ملکی استحکام کو یقینی بنایا اِس سے پوری پاکستانی قوم پوری طرح آگاہ ہے۔اِس وقت سوال اٹھتا ہے کیا بدامنی ہے، دہشت گردی ہے، بظاہر اِس سوال کا جواب ہو گا، نہیں ہے۔ یہ تاثر حقائق کے منافی ہے دہشت گردی نہیں ہے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں دہشت گرد گلی محلے،سکولوں اور مساجد میں نہیں ہیں دشمن نے ٹارگٹ بدل لیا ہے اس کا عملی ثبوت وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفد نے چائنہ کا بھرپور دورہ کیا جس میں آرمی چیف سمیت وزراء، مشیران کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دورہ ہر لحاظ سے کامیاب تھا کیونکہ اس دورے میں سی پیک کے فیز ٹو کی منظوری دی گئی، اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے، مستقبل کے لئے بڑے منصوبے تشکیل دیئے گئے آخر میں فیز ٹو، اربوں روپے کے منصوبوں کی منظوری کے بعد وزیراعظم پاکستان اور چینی صدر کے درمیان ہونے والی ون ٹو ون ملاقات میں چائنہ کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے ان کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
اب آتے ہیں اے این پی، سنی اتحاد کونسل، جے یو آئی، جماعت اسلامی کی طرف سے آپریشن استحکام پاکستان کی مخالفت کے حوالے سے کیا ان کی تنقید درست ہے۔خواجہ آصف صاحب کا موقف ہے ان چاروں جماعتوں کا ووٹ بنک کا مسئلہ ہے، اپنا ووٹ بنک بچانے کے لئے سیاست کر رہی ہیں، ان کی مجبوری ہے وہ ووٹ بنک بچانا چاہتی ہیں انہیں پاکستان بچانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کا موقف ہے کہ آپریشن استحکام پاکستان نہیں ہے یا آپریشن عدم استحکام آپریشن ہو گا۔پی ٹی آئی کے علی محمد خان کا موقف ہے صرف خیبرپختونخوا میں آپریشن قابل ِ قبول نہیں ہے اگر آپریشن شروع کرنا واقعی ناگزیر ہے تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی اے اِن کیمرہ اسمبلی کو بریفنگ دیں اور قائل کریں بات چیت تبھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ساتھ ہی علی محمد خان کا کہنا ہے وزیراعلیٰ کے پی کے نے استحکام پاکستان آپریشن کی حمایت نہیں کی حتمی فیصلہ عمران خان کریں گے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین کا موقف ہے اپیکس کمیٹی میں استحکام پاکستان آپریشن کے حوالے سے تفصیل نہیں بتائی گئی اور نہ کسی قسم کی منظوری ہوئی ہے، میں خیبرپختونخوا کے مسائل اور سیاسی صورتحال کے حوالے سے آرمی چیف اور دیگر آرمی کے ذمہ داران سے ملنا چاہتا ہوں، ان کو کچھ حقائق بتانا چاہتا ہوں جو اُن کے علم میں نہیں ہیں۔امیر جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ آپریشن استحکام پاکستان کی بجائے، پاکستان میں استحکام لانے کی ضرورت ہے تاثر بن رہا ہے کہ یہ آپریشن سیاسی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لئے کیا جا رہا ہے، بے وقت کی راگنی ہے قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ اپیکس کمیٹی کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ بھی متفقہ طور پر آپریشن استحکام پاکستان کی منظوری دے چکی ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعظم ہاؤس کی بھی تفصیلی بریفنگ میڈیا میں آ چکی ہے،آئی ایس پی آر کا موقف بھی آ چکا ہے جس میں دو ٹوک انداز میں کہہ دیا گیا ہے کہ آپریشن کسی سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف نہیں ہو گا، کسی علاقے کو خالی نہیں کرایا جائے گا، کوئی گرفتار نہیں ہو گا البتہ انٹیلی جنس کی بنیادوں پر ٹارگٹ آپریشن ہو گا جو 100فیصد ملک دشمن کے خلاف ہو گا، میرا ذاتی خیال ہے آپریشن استحکام پاکستان کی مخالفت کرنے والی خیبرپختونخوا کی چاروں جماعتیں محب وطن ہیں ان پر بلاوجہ الزام لگانے یا سیاست چمکانے کا کہہ کر ان کے تحفظات کو نظر انداز نہ کیا جائے، ان کو اعتماد میں لیا جائے، اگر ان کا مطالبہ ہے کہ اسمبلی میں بریفنگ دی جائے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ دفاعی اقدامات وقت اور قومی مفاد کا تقاضا ہے تمام حساس معاملات پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔
آپریشن استحکام پاکستان کے ذریعے ہونے والی کارروائیوں کے حوالے سے قوم میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، آپریشن استحکام پاکستان کے حوالے سے فیصلے مسلط کرنے کی بجائے مشاورت اور تجاویز کے عمل کو وسیع کیا جائے۔اگر اِن کیمرہ بریفنگ کا مطالبہ ہے تو دی جائے، پاک چائنہ معاہدوں کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا جائے، چین کا مطالبہ ہے سکیورٹی چائنز کو تحفظ اس کے لئے اقدامات ضروری ہیں۔ایک بات ذاتی طور پر میں کہنا چاہتا ہوں اس تاثر کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے یہ آپریشن استحکام پاکستان صرف خیبرپختونخوا میں ہونے جا رہا ہے، اس بات کو یقینی بنایا جائے دشمن ملک کے جس حصے میں ہو گا ان کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ نمٹا جائے گا یہ بھی کلیئر کر دیا جائے اِس آپریشن کے سیاسی مقاصد نہیں ہیں۔
ملکی مفاد میں سیاست کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر ملکی سرحدوں، ملکی معیشت اور دیگر امور پر تمام سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیا جائے اور اتفاقِ رائے کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ وہ آپریشن استحکام پاکستان ہو یا دیگر معاملات اس کے لئے حکومتی وزراء کو بھی خیر دامن نہ چھوڑنے کا حکم دیا جائے۔ وزراء کی طرف سے آپریشن استحکام پاکستان پر تحفظات کا اظہار کرنے والی جماعتوں پر بلاوجہ تنقید مسائل پیدا کر سکتی ہے، عوام جو مہنگائی اور جان لیوا یوٹیلٹی بلوں سے تنگ ہیں ان کو ریلیف دینے کے لئے بھی سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے، تمام فیصلے ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کیے جائیں وہ آپریشن استحکام پاکستان ہو یا عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ۔
٭٭٭٭٭