تُجھ سے ملے بغیر نومبر گذر گیا۔۔۔
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تُجھ سے ملے بغیر نومبر گذر گیا
عُمرِ رَواں خِزاں کی ہوا سے بھی تیز تھی
ہر لمحہ برگِ زرد کی صورت بکھر گیا
کب سے گِھرا ہوا ہوں بگولوں کے درمیاں
صحرا بھی میرے گھر کے در و بام پر گیا
دل میں چٹختے چٹختے وہموں کے بوجھ سے
وہ خوف تھا کہ رات میں سوتے میں ڈر گیا
جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اُتر گیا
ہم عکسِ خونِ دل ہی لٹاتے پھرے مگر
وہ شخص آنسوؤں کی دھنک میں نکھر گیا
محسن یہ رنگ رُوپ یہ رونق بجا مگر
میں زندہ کیا رہوں کہ مرا جی تو بھر گیا...!!!
کلام :محسن نقوی