سرزمین پنجاب کا عظیم ہیرو۔۔۔ نظام لوہار

   سرزمین پنجاب کا عظیم ہیرو۔۔۔ نظام لوہار
   سرزمین پنجاب کا عظیم ہیرو۔۔۔ نظام لوہار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 نظام لوہار 1835ء میں امرتسر کے نواحی علاقے ”ترن تارن“ میں پیدا ہوئے۔ بنیادی اعتبار سے نظام کا تعلق ایک غریب لوہار خاندان سے تھا۔بوڑھی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنے بیٹے نظام کو تعلیم دلوا رہی تھی۔گھر میں نظام کی ایک جوان بہن بھی تھی،نظام اپنے محلے اور سکول میں بھی سب سے الگ تھلک ہی رہتا تھا۔ اردگرد کی کسان آبادیوں پر بھاری لگان اور بیگار، پھر حکومت کے اہلکاروں کا مفلس کسانوں پر تشدد دیکھ کر نظام اکثر اسی سوچ میں گم رہتا کہ عام لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ساری برائی کی جڑ انگریز کی غلامی ہے۔ جب نظام نے اپنی بھٹی میں پہلے لوہے کی برچھی ڈھالی اور پھر ایک پستول بھی بنا لیا تو اس کی ماں نے اسے خوب برا بھلا کہا کہ اگر کسی کو معلوم ہوگیا تو کیا ہو گا؟وہ مسکرایا اور خاموش رہا۔ درحقیقت اس کے اندر ایک نیا انسان جنم لے رہا تھا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ اس کے باغیانہ خیالات کا آئینہ بن گئی تھی،آہستہ آہستہ سارے گاؤں کو پتہ چل گیا کہ نظام کے پاس کون کون سے ہتھیار ہیں۔نظام ساری ساری رات گھر سے باہر گزارتا۔ایک رات جب وہ واپس آیا تو دیکھا کہ اس کی ماں مرچکی ہے اور جوان بہن کے کپڑے تارتار ہیں۔ استفسار پربہن نے بتایا کہ تمہارے بعد انگریز پولیس افسر آیا تھا،اس نے گھر کی تلاشی لی اور تمہاری پستول اوربرچھی اس نے ڈھونڈ نکالی اور ماں کو اس قدر مارا کہ وہ مرگئی۔ میں نے مزاحمت کی کوشش کی، تو مجھے بھی بری طرح زودکوب کیا۔نظام کے لئے یہ واقعہ اس کی زندگی کا فیصلہ کن موڑ تھا۔اسی رات اس نے اپنی بہن کو ساتھ لے جا کے اپنے دوست محمد شفیع سے شادی کردی اور خود گھر بار چھوڑ کر ایک ویران حویلی میں پناہ لے لی جو آج بھی ککراں والی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔دوسری رات نظام تھانے پہنچا اور انگریز پولیس افسر کو قتل کردیا جس نے اس کی ماں کا خون کیا تھااور فرار ہوگیا۔اگلی صبح جب انگریز پولیس افسر کے قتل کی خبر علاقے میں پھیلی تو لوگ خوشی سے دیوانے ہو گئے،کیونکہ یہ انگریز پولیس افسر عورتوں کی بے حرمتی کرتا اور غریب کسانوں سے بیگار لیتا تھا۔انگریز پولیس افسر کے قتل پر ابھی لوگ خوش ہورہے تھے کہ سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس رونالڈ کی مسخ شدہ لاش دھپ سڑی پتن پر روہی نالے میں پائی گئی۔جب پولیس وہاں پہنچی تو نظام لوہار کی برچھی رونالڈ کے سینے میں گڑھی ہوئی تھی۔اس کے بعد انگریز حکومت کے لئے نظام لوہارایک چیلنج بن گیا۔ایک رات انگریز پولیس نے تحصیل پٹی کے ٹبے والے قبرستان پر چھاپہ مارا، لیکن نظام لوہار اس اڈے کو چھوڑ کر موضع سوہلی کی طرف چلا گیا۔راستے میں اس کی ملاقات اپنے علاقے کے مشہور باغی سوجا سنگھ کی ماں سے ہوئی جو بین کرتی جا رہی تھی۔ نظام نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ سوجھا سنگھ کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی ہے۔نظام نے تسلی دی اور خود سوجھا سنگھ کو چھڑانے کے لئے ”ٹبہ کمال چشتی“کی طرف چل پڑا۔ پولیس سے مقابلے کے بعد نظام لوہار نے سوجھا سنگھ کو چھڑا لیا۔اس پر سوجھا سنگھ کی ماں نے نظام لوہار کو اپنا بیٹا بنا لیا ا ور وہ اسی کے پاس رہنے لگا۔اس کے بعد نظام لوہار اور سوجھا سنگھ نے مل کر اوپر تلے انگریزوں کے چار اعلیٰ افسروں کو قتل کر ڈالا۔ دونوں نے انگریز حکومت کے خلاف منصوبہ بنایا اور علاقے کو بانٹ کر کسانوں کو ساتھ ملانے کے لئے راتوں کو گاؤں گاؤں پھرنے لگے۔آخر کار فیصلہ ہوا کہ میلوں اور عرسوں میں جاکر انگریز پولیس افسروں کو یہ کہہ کر قتل کیا جائے گا کہ پنجاب سے نکل جاؤ۔اسی سلسلے میں نظام لوہار ستلج پار بسنت کے میلے پر جارہا تھا کہ راستے میں اسے پیاس لگی۔ اس نے میلے میں جاتی ایک لڑکی سے لسی کا کٹورا مانگا۔لڑکی نے نظام کو لسی دے دی تو اس پر نظام نے اپنا آپ ظاہر کر دیا اور کہا، پنجاب کی ہر لڑکی میری بہن ہے،میں تو صرف انگریزوں کے خلاف ہوں اور انہیں پنجاب سے نکالنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد اس لڑکی نے نظام کی کلائی پر راکھی باندھ کر اسے اپنا بھائی بنا لیا وہاں سے  چلتے ہوئے ایک اور انگریز پولیس افسر لویئس کو قتل کردیا۔

اس سے میلے میں بھگڈ مچ گئی۔نظام نے چند ساہو کاروں کی حویلیوں پر ڈاکے ڈالے اور بہت سا مال اکٹھا کر کے اپنی منہ بولی بہن کی شادی کے دن اسے دے آیا، حالانکہ نظام کو اس گاؤں سے نکلنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن سوجھاسنگھ اور جبرو جیسے ساتھیوں نے نظام کی مدد کی اور وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔اب نظام لوہار انگریز پولیس کے لئے ایک خوف کی علامت بن چکا تھا،مگر سوجاسنگھ کی ماں کی بیماری کا سن کر واپس حویلی آگیا۔وہاں پہنچ کر نظام کو معلوم ہوا کہ سوجھا سنگھ ساتھ والے گاؤں ”جٹاں دا کھوہ“ کی ایک لڑکی چھیما ماچھن سے پیار کرنے لگا ہے۔نظام کو یہ بات پسند نہ آئی اس نے چھیماماچھن کو بلا کر سمجھایا کہ توسوجھاسنگھ سے پیارکرنا چھوڑ دے، کہ پیار محبت انسان کو بزدل بنا دیتے ہیں  اس پر چھیما نے سوجھا سنگھ کو نظام لوہار کے خلاف بھڑکایا تو وہ نظام کے خلاف ہوگیا۔اس نے دس ہزار روپے اور چار مربع زمین کے لالچ میں تھانہ بھیڑیالہ میں اطلاع کردی کہ نظام لوہار آج ہمارے گھر میں ہوگا اور کل واپس کالا کھوہ چلا جائے گا۔نظام لوہار جس کمرے میں سویا ہوا تھا پولیس نے چاروں طرف سے اسے گھیر لیا اور چند سپاہی چھت پر چڑھ کمرے کی چھت کو توڑنے لگے۔ نظام کو پتہ چل گیا،اس کی گھوڑی اسی کمرے میں بندھی ہوئی تھی۔نظام نے سر پر لوہے کا تسلہ رکھا اور گھوڑی کو بھگانے کے لئے سیٹی ماری۔جب نظام گھر کی دہلیز پار کررہا تھا تواس کا سردہلیز سے جا ٹکرایا،وہ بے ہوش ہوکر  گر پڑا۔ پولیس اڑتالیس گھنٹے تک اس پر گولیاں برساتی رہی۔تیسرے دن نظام کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے قصور کے سول ہسپتال لائی گئی۔ پنجاب کے بہادر اور دلیرہیرو کی لاش دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔حکومت نے اعلان کر دیا،جو مسلمان نظام کے جنازے میں شریک ہو گااسے دو روپے ادا کرنے ہوں گے۔اس طرح 35ہزار روپے اکٹھے ہوگئے۔نظام کی قبر پر لوگوں نے اتنے پھول ڈالے کہ قبر پھولوں کاپہاڑ بن گئی۔نظام قصور شہر کے بڑے قبرستان میں دفن ہے۔جب سوجھا سنگھ کی ماں کو پتہ چلا کہ اس کے بیٹے نے مخبری کرکے نظام لوہار کو مروایا ہے تو اس ماں نے سوجھا سنگھ کو جبرو کے سامنے خود گولیوں سے چھلنی کردیا اور لاش پر کھڑے ہو کر کہا میں تمہیں کبھی اپنا دودھ نہیں بخشوں گی،تم نے نظام کی مخبری کرکے پنجاب کے ساتھ غداری کی ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -