سِگنل فری کوریڈور کی جگہ فُٹ پاتھ 

           سِگنل فری کوریڈور کی جگہ فُٹ پاتھ 
           سِگنل فری کوریڈور کی جگہ فُٹ پاتھ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئے زمانے کے جن الفاظ نے زندگی مشکل بنا دی ہے اُن میں سیر کرنے کے لیے ’واک‘ کی فیشن ایبل اصطلاح بھی شامل ہے۔ آج کل کسی بھی سیرگاہ یا جوگنگ ٹریک کا رخ کریں، ہر ماڈل اور سائز کے ’واکر‘ بھرپور عزم کے ساتھ کسی خیالی ٹارگیٹ کا پیچھا کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ عمر، صنف اور تراش خراش کی رنگا رنگی کی بدولت بعض اِتنے پُرجوش کہ اشارہ دے کر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ”آہو، ایدھر ای گیا جے“۔ شاید اِن میں کچھ طبی مشورے والے ہوں اور کچھ وہ کہ جوانی میں فِٹ رہنے کا شعور بیدار ہو گیا۔ تیسرا گروہ وہ فارغ البال طبقہ ہے جس کی واک خوشحالی کا صدقہ اور وقت گزاری کا بہانہ ہوا کرتی ہے، مگر سج دھج ایسی جیسے کسی افسر نے چھٹی کے اوقات کے بعد بھی وردی پہن رکھی ہو۔ آپ پوچھیں گے کہ شاہد ملک، یہ بتاؤ تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ 

 مسئلہ ہے ’واک‘ اور سیر کا تضاد۔ ظاہری مشابہت سے اِس لیے انکار نہیں کہ دونوں کا تعلق پیدل چلنے سے ہے۔ پھر بھی اِن کے درمیان ایک باریک سا کیفیتی فرق ہے۔ اِتنا باریک کہ اِسے صرف اہلِ دل ہی سمجھ سکیں گے۔ ایک ہے شروع سے آخر تک محض جسمانی ورزش، دوسری میں ہلکی ہلکی ذہنی آسودگی کا سامان بھی ہے۔ بے مقصد آسودگی کی یہ کیفیت نہ تو ٹریک سوٹ اور جوگرز کی محتاج ہوتی ہے، نہ کڑے ٹائم ٹیبل کے مطابق کسی کلب یا پارک کے اندر افسرانہ پھوں پھاں کی متمنی۔ چنانچہ اِس آوارہ مزاجی کے لیے فقط جوگنگ ٹریک یا باغ کی روش سیرگاہ کا کام نہیں دیتی بلکہ صبح و شام ’ڈول بدست‘ گھر سے دودھ دہی کی دکان کی مسافت یا تپتی دوپہر میں قصباتی بازاروں کی مہرباں چھولداریاں، یہ سب سیر گاہیں ہوتی تھیں۔ اِ س بیچ آپ کی رفتار اور مشاہدے کا دورانیہ باہم ایک کھیل بھی کھیلتے ہیں۔

 چند سال پہلے ایک دوست نے اسٹاف کار چھوڑ کر سائیکل پر دفتر جانے کی عادت اپنائی تو اُس کی آنکھوں پہ فطرت، تمدن اور سماج کے نئے دریچے طلوع ہونے لگے۔ خوش قسمتی سے وہ انگریزی ساخت کی اصلی جی او آر میں رہائش پذیر تھے جہاں رفتار گھٹا کر اپنے مشاہدے کا دورانیہ بڑھا دینا ایک کیف آگیں تجربہ ہے۔ ایک تو شہر کے مقابلے میں ٹریفک انتہائی کم، دوسرے ’صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں‘۔ پھر ہر گیٹ پر چوکیدار، مالی، فُل ٹائم اور ’فری لانس‘ مائیاں جن کے پاس سے آپ ہر صبح ’شوں‘ کرکے گزر جاتے تھے، اب اُن کی سمجھ میں ایک نئی بات آنے لگی ہے۔ یہی کہ بال بچوں کا حال پوچھنے والے اِس اعلی افسر کی آنکھ میں ایک انسانی جھلک بھی ہے۔ ورنہ گینڈا نما گاڑی کی اسپیڈ اور سِیٹ سوار ’ویو پوائنٹ‘ کے ساتھ جو ڈرامہ کرتی ہیں اُس سے خدا بچائے۔

 ’عینک‘ کا نمبر درست رکھنے کے اور طریقے بھی ہوں گے لیکن سب سے کار آمد دُور، نزدیک اور درمیانی فاصلے کا وہ ملٹی فوکل چشمہ ہے جو قدرت نے ہر انسان کو عطیہ کیا۔ جیسے اُن شہر و دیہات میں جہاں کوئی دریا، نہر یا ندی نالہ گزرتا ہو، نو عمر لڑکے ارادے کے بغیر دیکھا دیکھی تیراکی سیکھ جایا کرتے ہیں۔ اگر ہماری طرح آپ کا آبائی محلہ بھی شہر کے ایک اونچے پہاڑی نما ٹیلے پر واقع تھا تو پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ بچپن میں چیچک، ہیضہ اور ٹائیفائڈ کے ٹیکے لگانے والوں کی طاقتور جیپ کے سوا کبھی کوئی بس، کار یا ٹرک آپ کے دروازے تک پہنچ سکا ہو۔ اس صورتحال میں اگر آپ کو اپنے دادا کی انگلی پکڑ کر ٹبہ ککے زئیاں، ٹانچی محلہ یا نائیوں والی گلی کی چڑھائی پا پیادہ چڑھنے، اترنے کی عادت ہو جائے تو یہ حیرت کی بات نہیں۔

لفظ ’سیر‘ کے معانی دیکھیں تو ان میں چلنے پھرنے کے علاوہ گرد و پیش کا جائزہ لینے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا پہلو بھی ہے۔ ہم گھر سے نکلتے تو پہلے مولوی فاضل کی ہٹی، چند  قدم  چل کر چاچے اقبال کا تھڑا، اس سے دائیں مڑیں تو ظہور نام کا ٹیڑھا میڑھا سا آدمی جسے سب جُورا کہتے۔ پھر الٹے ہاتھ پر قصائیوں کے گھر، سامنے لیڈی ڈاکٹر سرفراز کا چھوٹا سا بورڈ، ذرا آگے ماسٹر محمد دین ثاقب کا مکان اور اسی کے باالمقابل پھوپھا جمال دین، جو شاعر مشرق اور ان کے بڑے بھائی کو بابو اقبال اور بابو عطا محمد کہہ کر یاد کرتے تھے۔ یہاں پہنچ کر پیدل سفر کی جبری حدود ختم ہو جاتیں۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ اڈہ پسروریاں سے گھاس منڈی، ڈرماں والا چوک یا کچہری والے پھاٹک تک تانگہ پکڑ یں یا ’چلا جا رہا ہوں کنارے کنارے‘۔ 

سیر کا اگلا مرحلہ محض اِتنی تبدیلی لایا کہ ٹینس کی طرح کبھی سنگل مقابلے اور کبھی ڈبل، البتہ مکسڈ ڈبل کی نوبت کم ہی آئی۔ واہ کی مال کے بیشتر کلاسیکی اہلِ سیر گواہ ہیں کہ حسن ابدال اور ٹیکسلا والے بیرئر کے درمیان میوزک کمپوزر خادم حسین، اتھلیٹ جاوید خان اور میر ایاز آف شاہواں دی ڈھیری کے ہمراہ سب سے زیادہ چکر کس نے لگائے تھے۔ جاوید خان کی ہمراہی میں چال تیز ہو جایا کرتی، خادم صاحب کی موجودگی میں معتدل جبکہ میر ایاز کے ساتھ، جو نو عمری میں بھی میر صاحب ہی کہلائے، ایک گونہ پُر تعیش سست روی سے چلنا پڑتا۔ اِس عالم میں آرڈ ی ننس کلب، اسلم مارکیٹ اور پی او ایف اسپتال سے نکلنے اور داخل ہونے والے کرداروں کے بارے میں ہماری گفتگو میں گہرائی آجاتی اور میر صاحب مزے لے کر گنگنانے لگتے:

 اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب

 دولتِ حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

ہماری سیر کے ایک ساتھی مقامی کالج کے پرنسپل عبید اللہ خان بھی تھے جن کی پیش قدمی شمالی جانب خان پور ڈیم اور جنوب مشرق میں مرگلہ پہاڑی تک ہوتی جہاں جنرل نکلسن والا مینار کھڑا ہے۔ راستے میں عبید اللہ خان کی لوک دانائی، نرول حس ِ مزاح اور یہ جملہ کہ ”بھرا جی کیِہہ کراں، انگریزی نہیں آؤندی“۔ اِسی ٹریننگ کا نتیجہ ہے کہ گورڈن کالج راولپنڈی میں دورانِ تدریس مری روڈ پر سیٹلائٹ ٹاؤن، سید پور روڈ کے راستے آئی نائن اور چھاؤنی میں لالہ زار کے آخری سرے پر دھمیال ائیر بیس مجھے، پروفیسر آصف ہمایوں قریشی اور ’میجر تان سین‘ کو ہمیشہ اپنے زیرِ نگیں لگا۔ اِسی طرح لاہور میں قیصر ذوالفقار بھٹی اور طاہر یوسف بخاری کی ہمراہی میں ایک مرتبہ عید میلاد النبیؐ پر سیر کی نفلی ریاضت کا باجماعت سرگرمی بننا بھی ایک واقعہ ہے۔ 

اُس رات ہم مستقبل میں پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل اور اُس وقت لیکچرر کیمسٹری کی قیادت میں ٹہلتے ٹہلتے ایک ناواقف سوزوکی پک اپ پر چڑھے اور سرکلر روڈ کا پورا چکر لگایا۔ پھر ایک دکان سے کشمیری چائے پی کر بغیر پیسے دیے کھسکے اور آخر میں بیرون لوہاری دروازہ عوامی دھمال میں والہانہ شرکت کی۔ گورنمنٹ کالج کے دو حیران، پریشان شاگردوں نے یہ منظر دیکھا تو یہ کہہ کر چُپ کرا دیا کہ یار، اس خبر کو عام نہ کرنا۔ بس، ایک رولا رپا تھا اور ’وچ مرزا یار پھرے‘۔ اب مرزا یار پریشان ہے کہ سیر کے دوران نزدیکی فاصلے سے کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں، ولائتی ٹریک سوٹوں میں لدے پھندے جوان، دوپٹہ کی کراس بیلٹ والی چیونگم چباتی خواتین اور وہ چاق چوبند بڈھے جنہیں دیکھ کر3 2مارچ کی پریڈ کا خیال آتا ہے۔ جذبہء انتقام کہہ رہا ہے کہ سارے لاہور کو پھر سے اپنی سیرگاہ سمجھ لوں۔ کیا خبر، سارے شہر کو سگنل فری کرنے کے شوقین کبھی ہم جیسے پیدلوں کے لیے فٹ پاتھ بھی بنوا دیں۔

مزید :

رائے -کالم -