ضمیر کا قبرستان

   ضمیر کا قبرستان
   ضمیر کا قبرستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بات صرف اتنی تھی کہ میں نے اسے وہ سو روپے لوٹا دیئے تھے جو اُس نے بقایا پیسے دیتے ہوئے مجھے زائد دے دیئے تھے،مگر وہ اتنا حیران اور خوش تھا کہ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ ایک معمولی دکاندار کی یہ خوشی دیکھ کر کچھ عجیب سا بھی لگا۔اُس نے میری کیفیت کو بھانپتے ہوئے کہا، جناب یہاں تو ہر شخص دوسرے کو لوٹنے اور دھوکہ دینے کے در پے ہے۔ دکاندار پورا نہیں تولتا، مال کا نقص نہیں بتاتا، ریہڑی والا آنکھ بچا کرگلے سڑے پھل ڈال دیتا ہے،لوگ جعلی نوٹ چلا جاتے ہیں،دکانوں پر دو نمبر مال بکتا ہے، ہر طرف بے ایمانی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں مجھے آپ نے سو روپے لوٹا کر حیران کر دیا ہے۔سچی بات ہے اُس وقت مجھے خود سے شرم آنے لگی۔آخر میں بھی تو اِسی معاشرے کا فرد ہوں، جس میں مفاد پرستی، خود غرضی، لوٹ کھسوٹ اور پیسے کو دین ایمان مان لیا گیا ہے میں نے اگر اچانک اور اتفاقاً سو روپے واپس کر دیئے ہیں تو یہ معصوم مجھے کیا سمجھ رہا ہے۔میں کوئی فرشتہ ہوں،نہیں میں بھی وہی ہوں جو اِس معاشرے میں سب بن گئے ہیں مجھے اپنا ایک  شعر یاد آ گیا۔

یہ مادیت کا جہاں ہے کسی سے کیا شکوہ

وفا کی خاک تو میں بھی اڑاؤں گا اک دن

ہائے ہائے کیا زمانہ آ گیا ہے۔ہماری حیرتوں کا سبب بھی کیا باتیں بن چکی ہیں۔ عظمت کی داستانیں تو ان باتوں سے منسوب نہیں۔ہمارے اسلاف کی تاریخ تو دوسری قسم کی حیرتوں سے بھری پڑی ہے۔کسی کے پاس غلط چیز چلی جاتی تو اُس کے گھر تک جاتے اور معافی مانگ کر وہ چیز واپس لے آتے۔کسی کا  کچھ دینا ہوتا تو یہ انتظار نہ کرتے لواحقین میرے جنازے پر کھڑے ہو کر خود ہی اعلان کر دیں گے کہ کسی نے کچھ لینا ہو تو ہم حاضر  ہیں۔ میت کو معاف کر دیں۔زندگی ہی میں دوسروں کا حق فرض لوٹائیں۔ آج کا ماجرا کیا ہے۔ کسی سے تعلقات خراب کرنے ہوں تو اُسے ادھار دے دو۔ پھر وہ آپ کو ملے گا اور نہ آپ کا فون سنے گا۔ہر کوئی اِس داؤ میں بیٹھا  ہے کہاں نقب لگے اور وہ دوسروں کا حق مار کر اپنی جیب بھر لے۔ ذرا سی بھنک پڑ جائے کسی چیز کی مانگ بڑھ گئی ہے اُُسے ایسے نایاب کر دیں گے کہ سات آسمان چھان مارنے کے باوجود نہیں ملے گی۔ہاں آپ زائد قیمت پر خریدنا چاہیں گے تو سب متقی و پرہیز گار آپ کے سامنے لا کر ڈھیر کر دیں گے۔یہاں مجھے کبیر والہ کی نوجوان شاعرہ کومل جوئیہ کا ایک شعر حسب ِ حال لگ  رہا ہے۔

منسوب چراغوں سے طرفدار ہوا کے

تم لوگ، منافق ہو منافق بھی بلا کے

اتنے عظیم دین کے ماننے والے ہوکر بھی اگرہم دنیاوی معاملات میں اُن معاشروں سے بھی پیچھے ہیں جو بے دین ہیں، تو یہ ہمارے لئے کوئی فخرکی بات نہیں ہو سکتی۔اسی دو عملی نے ہمیں ایک دوسرے سے خوفزدہ کر دیا ہے،ہمیں یوں لگتا ہے ہر دوسرا آدمی ہماری گھات میں ہے، ہمیں دھوکہ دے گا لوٹ لے گا۔بھروسہ بھی کسی معاشرے کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہوتا ہے،ہم بھروسے سے محروم ہو چکے ہیں، سرکاری دفتروں کی تو بات  ہی کیا ہے انہیں لوگوں کے لئے شفافیت کی جگہ ہونا چاہئے، مگر عالم یہ ہے کہ کسی بھی دفتر میں جانے سے پہلے ہم سو پاپڑ بیلتے ہیں کہ کوئی ریفرنس مل جائے، کوئی جاننے والا نظر آ جائے۔ جیسے کوئی بکری شیر کی کچھار میں جاتے ہوئے تھر تھر کانپ رہی ہوتی ہے،اُسی طرح کسی تھانے، کسی پٹوار خانے،کسی افسر کے دفتر اور کسی محکمے کے کارندوں کے پاس جاتے ہوئے ہم الٰہی خیر کی گردان کرتے جاتے ہیں کہ نجانے آگے سے وہ ہمیں کس مشکل میں ڈال دے،میں نے خود ایسے افسروں کو قریب سے دیکھا ہے جن کی سوچ یہ ہوتی ہے عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی جائیں۔ یہ فائل روک کر جعلی ڈرامہ صرف پاکستان میں رچایا جاتا ہے اور فائل کو پہیے لگانے کی بات بھی صرف ہمارے ہاں ہوتی ہے۔چند روز پہلے ملتان میں ایک سرکاری محکمے کا اہلکار دفتری اوقات کے دوران حرکت ِ قلب بند ہونے کے باعث انتقال کر گیا، جس وقت اُسے ہارٹ اٹیک ہوا اُس کے سامنے فائلوں کا انبار لگا ہوا تھا اور سائلوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی، اگر وہ کام کر رہا ہوتا تو اُس کی میز پر فائلوں کا پہاڑ کھڑا ہوتا اور نہ اُس کے کمرے میں مجبور سائلوں کی اتنی بڑی تعداد ہوتی۔گویا اُس کے پاس وقت تھا،مگر اُس نے خلق ِ خدا کو تنگ کرنے میں ضائع کر دیا۔ اُس نے وہی وقت انہیں راحت پہنچانے میں صرف کیا ہوتا تو اُس کی روح بھی پُرسکون ہو کر عالم بالا پرواز کرتی اور اُس پر حقوق العباد کو سلب کرنے کا کوئی الزام بھی نہ ہوتا۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایسی سامنے کی چیزیں اور واقعات دیکھ کر بھی نہیں سدھرتے۔ مجھے یقین ہے اُس کی جگہ جو اہلکار تعینات ہوا ہو گا اُس نے بھی وہی روش برقرار رکھی ہو گی، وہ بھی فائلوں پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہو گااور اُس وقت تک اپنا پھن پھیلائے رکھتا ہو گا جب تک کسی محروم، مظلوم، غریب اور لاچار سے فائل کو پہیے لگانے کا معاوضہ حاصل نہ کر لیتا ہو۔ کیا ایسے معاشرے چلتے ہیں،کیا یہ دو نمبریاں معاشروں کو توانا اور فلاحی بننے دیتی ہیں ایسا تو جنگل میں بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جنگلوں کے بھی دستور ہوتے ہیں اور اُس میں ہر نوع کا جانور اپنی زندگی گزارنے میں آزاد ہوتا ہے۔

یہ بحث بھی  ہمارے ہاں ایک ناسور کی شکل اختیار کر گئی ہے کہ ایمانداری کا آغاز اوپر سے ہو گا یا نیچے سے، حالانکہ ایمانداری ہر شخص کا معاملہ ہونا چاہئے۔کل قبرستان جانے کا اتفاق۔ والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے بعد میں نے دیکھا کئی قبریں بیٹھ گئی ہیں۔ ذرا فاصلے پر چند لوگ جمع تھے اور گورکن خاندان کے دو افراد سے بحث و تکرار کر رہے تھے۔میں قریب چلا گیا، پتہ یہ چلا کہ جمع ہونے والے افراد یہ الزام لگا رہے ہیں کہ گورکن خود قبروں میں پانی چھوڑ کر انہیں کھوکھلا کر دیتے ہیں تاکہ وہ بیٹھ جائیں اور اُس کے بعد مرمت کے نام پر ہزاروں روپے مانگتے ہیں، میں نے مداخلت کی اور کہا ایسا نہیں ہوتا۔میں ان گورکنوں کو برسوں سے جانتا ہوں یہ ایسے نہیں۔اُن میں سے ایک شخص بولا اِن کے بزرگ ٹھیک تھے، جو نئی نسل اس کام میں آئی ہے وہ لالچی ہے۔اُس نے بتایا ابھی دو ہفتے پہلے ہم نے قبر کی مرمت کرائی تھی۔اس دوران بارش بھی نہیں ہوئی، پھر یہ قبر کیسے بیٹھ گئی،جبکہ صاف نظر آ رہا ہے اس میں پانی داخل ہوا ہے۔میں یہ بحث سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتا قبرستان سے باہر آ گیا۔کیاواقعی لالچ اور طمع نے قبرستانوں کا رُخ کر لیا ہے۔یہ تو عبرت کی جا ہے یہاں تو ایسا سوچنا بھی عجیب لگتا ہے،لیکن پھر مجھے ایک روز پہلے چھپنے والی ایک خبر یاد آئی، جس میں یہ لکھا تھا کہ ایک لیڈی ڈاکٹر نے صرف فیس کے لالچ میں نارمل ڈلیوری کی بجائے ایک خاتون کا آپریشن  کر دیا،جس کے باعث زچہ بچہ دونوں جان سے گئے۔ قبرستانوں میں تو لاشیں زیر زمین چلی جاتی ہیں، یہاں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ لاش ہسپتال میں پڑی ہوتی ہے۔ چند ہزار روپے کی خاطر اُسے ورثاء کو نہیں دیا جاتا۔ وہ چند ہزار روپے جو اُلٹے سیدھے ٹیسٹوں کی وجہ سے بنائے گئے ہوتے ہیں تو صاحبو! ایسی باتیں سوچ کر مجھے اُس دکاندار کی حیرت بجا لگی،جسے میں نے سو روپیہ واپس کر دیا تھا۔ یہ باتیں واقعی اب عجوبہ لگتی ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے ایمانداری، سچائی اور دیانت و امانت کو ضمیر کے قبرستان میں دفن کر دیا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -