جنات کا غلام۔۔۔سولہویں قسط
معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
پندرھویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
شاید میں پہروں سویا ہوں گا۔ جب آنکھ کھلی تو میں مہمان خانے میں شاہ صاحب کے بستر پر سویا پڑا تھا۔ میں آنکھیں ملتا ہوا انگڑائی لے کر اٹھ پڑا۔ کمرے میں ہلکا سا اجالا تھا۔ صبح ہو رہی تھی اور نرم رو روشنی کھڑکیوں سے چھن چھن کر اندر آ رہی تھی۔ کمرے کی فضا ابھی تک گماں کی حد تک معطر تھی لیکن جو ماحول اور آسودگی مجھے نیند سے پہلے میسر تھی وہ اب کمرے میں عنقا تھی۔ میں سوچ و بچار میں مبتلا ہو گیا کہ میں تو ایک براق بستر پر سویا ہوا تھا اور اس کمرے کی فضا ایسی تو نہ تھی۔ مجھے خیال آیا کہ غالباً میں نے نیند کی حالت میں یہ لطف و کرم پایا ہے۔ میرا وجود گواہی دے رہا تھا کہ جو آسودگی خواب میں ملی ہے وہ یقیناً اپنی حقیقت رکھتی ہو گی۔ میں ذہنی طور پر الجھنے بھی لگا تھا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ باغیچے میں میرے ساتھ کیا ہوا تھا اور پھر لمحہ لمحہ سرکتی ہوئی یادیں مجھے بابا جی کی باتیں یاد دلانے لگیں۔ میں بستر سے اٹھا ہی تھا کہ دروازے پر کھٹکا ہوا اور شاہ صاحب تولئے سے سر کو رگڑتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ وہ غسل کرکے آئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بولے
”مزے لوٹ لیئے ہیں، بڑے قسمت والے ہو تم“
میں پرجوش مسکراہٹ لیتے ہوئے بولا ”یہ سب آپ کی مہربانی ہے شاہ صاحب ورنہ میں کس کام کا“
”ارے تم بڑے کام کے ہو“ ان کی بات سن کر مجھے بابا جی کی بات یاد آ گئی
”شاہ صاحب میں تو باہر باغیچے میں تھا اور“
”چھوڑو ان باتوں کو شکر کرو کہ تمہاری چیخ سن کر بابا جی نے تمہیں اس عفریت سے جلد بچا لیا ورنہ تمہارا حال بھی وہی ہوتا تو زلیخا کا ہوا تھا“
”وہ کون تھا“ میں پریشان ہو کر ان کربناک لمحوں کو یاد کرنے لگا۔
”وہی حرام خور کالی داس تھا جو تمہیں قبرستان میں ملا تھا“ شاہ صاحب بید کی کرسی پر بیٹھ گئے اور شیشی سے سرسوں کا تیل نکال کر گیلے بالوں میں لگانے لگے۔
”اصل میں اس میں قصور میرا ہے“ وہ بولے ”تمہارے جانے کے بعد مجھے تو احساس نہیں ہوا تھا کہ اس خطرناک عملیاتی کام پر تمہیں نہیں بھیجنا چاہئے۔ بس دماغ پر طاقت کا نشہ تھا اس لئے بھیج دیا کہ تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ اندازے کی غلطی ہو گئی۔ بابا جی خلاف توقع عین اس وقت آ گئے تھے جب تم قبرستان کی اس قبر میں گرے تھے اور وہ بدکار تم کو قابو کرنے لگا تھا لیکن بابا جی کی حویلی میں آمد نے اس کو یہ جرات نہ ہونے دی۔ تم تو بھاگ کر آ گئے اور ادھر بابا جی کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے کھینچا تانی شروع کر دی۔ پھر جب تم باغیچے میں تھے تو اس بدکار نے تم پر دوبارہ حملہ کر دیا۔ اس نے یہ حملہ حویلی میں موجود کافروں کی پکھی کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اکیلا وہ حویلی میں نہیں آ سکتا تھا۔ وہ میرے دشمنوں کے ساتھ مل گیا تھا“
”وہ کون تھا“ میں نے دوبارہ استفسار کیا
”وہ ہمارا دشمن تھا اب تمہارا بھی بن گیا ہے“ شاہ صاحب نے کہا ”ٹھہرو میں تمہیں بتاتا ہوں اس کا نام کالی داس ہے ۔ ہندو ہے اور ہندو عاملوں کے کام کرتا ہے جس طرح ہمارے ہاں یعنی میرے ساتھ بابا جی پیار کرتے ہیں اسی طرح کالی داس بھی جن ہے مگر کافروں میں سے ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے میں میانی صاحب لاہور میں چالیس روزہ وظیفہ کر رہا تھا کہ اس سے ٹاکرہ ہو گیا۔ باباجی ابھی میرے پاس نہیں آئے تھے۔ میں حقیقت میں بابا جی کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہی یہ چلہ کاٹ رہا تھا۔ بابا جی میرے بڑے بھائی کے پاس آتے تھے۔ میری والدہ کی وفات کے بعد بابا جی سرکار بھائی سید اقبال حسین شاہ کے پاس حاضری دیتے تھے۔ میری والدہ عبادت گزار خاتون تھیں۔ راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتی تھیں۔ بابا جی کی ان کے ساتھ عقیدت تھی۔ یہ الگ داستان ہے کہ بابا جی میری والدہ کے پاس کیوں آتے تھے اور یہ میں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا۔ بہرحال میں جن دنوں چلا کاٹ رہا تھا میری رہنمائی اور سرپرستی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ چلہ کاٹنے سے پہلے مرشد کی اجازت چاہئے ہوتی ہے۔ چونکہ باباجی بڑے بھائی کے پاس آتے تھے اور مجھے کسی حد تک ان کی آمد اور روانگی کے طریقہ کار سے آگاہی ہونے لگی تھی بلکہ میں نے کچھ کلمات بھی سیکھ لئے تھے لہٰذا میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ بابا جی تو ہماری والدہ کے علم کی وراثت ہیں۔ اسے ہم دونوں بھائیوں میں تقسیم ہونا چاہئے۔ بڑے بھائی سے تو میں یہ نہ کہہ سکا لیکن یہ خواہش مجھے بے قرار کرنے لگی اور میں بابا جی قربت کی خواہش سے تڑپنے لگا۔ ایک روز میں نے موقع پا کر بابا جی سے یہ کہہ بھی دیا کہ آپ کبھی مجھے بھی زیارت اور خدمت کا موقع دیں۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ہماری زیارت اور خدمت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جاﺅ۔ اس کے لئے مجاہدے کرنے پڑتے ہیں اپنا نفس مطیع کرنا پڑتا ہے تم ابھی بچے ہو۔ میں نے مجاہدے سے مراد یہی لی کہ وہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ چلے وغیرہ کرو۔ ایک روز میں نے اخبار میں پڑھا کہ میانی صاحب کے قبرستان میں عاملین چلے کاٹتے ہیں۔ خیر میں نے محلے کے مولوی صاحب سے چلے کے بارے کچھ معلومات حاصل کیں اور کچھ باتیں کتابوں سے پڑھنے کے بعد سمجھے لگا کہ اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ قبرستان میں جا کر چلہ کاٹ سکتا ہوں۔ اصل میں میرے دماغ میں جو بات آ جاتی ہے اور جو خواہش تنگ کرتی ہے میں اس کو پورا کرتا ہوں۔ بڑے بھائی کی عادت مختلف ہے۔ میں نے میانی صاحب میں بیس روپے دے کر گورکن سے پچاس سالہ پرانی قبر پر بیٹھ کر چلہ شروع کیا تھا۔ مجھے چلہ کاٹتے ہوئے تین روز ہی گزرے تھے کہ یہ بدکار کالی داس میرے سامنے حاضر ہو گیا۔ میں سمجھا کہ بابا جی آ گئے ہیں۔ مجھے کیا تمیز تھی۔ میں تو اس وقت یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ جنات اشکال بدلنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ میں نے اسے بابا جی کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ اس نے بھی مجھے بابا جی بن کر ہی حوصلہ دیا اور کہا کہ اب مجھے مزید چلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے دل کھول کر بڑے بھائی کے خلاف باتیں کیں اور اس سے اس کی حاضری کے کلمات حاصل کر لئے۔ میں خود کو بڑا خوش قسمت سمجھتا تھا کہ میں دنیا کا واحد عامل ہوں جس نے چالیس روز کی بجائے صرف تین روز میں ایک جن کو قابو کر لیا ہے لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھے پہلے ہی قدم پر گمراہ کر دیا گیا تھا اور میں عامل کی بجائے معمول اور موکل بن کر رہ گیا ہوں۔
میں نے اب گھر جانا چھوڑ دیا تھا۔ کالی داس نے مجھے لاہور کی ایک پرانی بستی کا ایک مکان لے کر دے دیا۔ اس بستی میں ہندو رہتے ہیں۔ میں نے اس بارے کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی بلکہ میرے اندر گھمنڈ پیدا ہونے لگا تھا۔ کالی داس روزانہ حاضری دیتا تھا۔ اس نے مجھ پر خود کو آشکار نہیں کیا تھا۔ وہ خود کو مسلمان جن ہی ظاہر کرتا تھا۔ اصل میں وہ بابا جی سرکار کو اچھی طرح جانتا تھا اس لئے وہ مجھے استعمال کر رہا تھا۔ کالی داس آہستہ آہستہ کھلنے لگا تھا۔ میں نے اس بستی میں چند آسیب زدہ مریضوں کا علاج کیا تو لوگ میرے پاس آنے لگے۔ پیسہ بھی آنے لگا اور مریدین بھی ۔ ایک روز کالی داس نے مجھے کہا کہ اگر تم کچھ کالے عمل وغیرہ سیکھنا چاہتے ہو تو میں تمہیں سکھا دوں گا۔ میں اس وقت حیران نہیں ہوا کہ ایک مسلمان جن مجھے شیطانی علم سکھانے کی بات کیوں کر رہا ہے۔ اصل میں جب خواہشات کی تکمیل کا شمار ہو تو انسان کسی ناجائز بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ میں نے حامی بھر لی اور یہ مجھے ہندوﺅں کے مندروں‘ اشنان گھاٹ اور مرگھٹ وغیرہ پر لے جانے لگا۔ پھر ایک روز اس نے مجھے ایک ایسا عمل سکھایا جس کو یاد کرتا ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے۔ یہ عمل سکھانے کے بعد اس نے مجھے کہا کہ اب تم اپنے گھر میںاس وقت یہ عمل کرنا جب تمہارا بھائی بابا جی یعنی میری حاضری لگائیں۔ اس طرح میں ان کی قید سے نکل کر ہمیشہ کے لئے تمہارے پاس آ جاﺅں گا۔ میں نادان تھا یہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ جب وہ خود میرے پاس آتا جاتا ہے تو پھر کس قید کی بات کر رہا ہے خیر۔ میں وہ سفلی علم سیکھنے کے بعد گھر گیا۔ بھائی عموماً جمعرات کو بابا جی کی حاضری لگاتے تھے لیکن اس روز بابا جی چند مریضوں کے علاج کے لئے حاضری دے رہے تھے۔ بھائی جب آسیب زدہ مریضوں کا علاج کرکے فارغ ہوئے اور بابا جی کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے تو میں نے کالی داس کا سکھایا ہوا عمل کرنا شروع کر دیا۔
خدا کی پناہ۔ ایسا حشر برپا ہو گا‘ ایسا قہر رونما ہو گا۔ میرے تو ہوش اڑ گئے۔ بڑے بھائی کو تو سمجھ ہی نہیں آ سکی تھی کہ یہ کیا ہوا ہے اور میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔ اگرچہ وہ مجھ سے شاکی رہتے تھے لیکن وہ یہ بات اپنے ذہن میں نہیں لاتے تھے کہ میں ان سے بدگماں رہتا ہوں۔
میں نے اس عمل کے ابھی دو جاپ ہی کئے ہوں گے کہ کمرے میں بھونچال آ گیا۔ بابا جی اتنے زور سے ڈکرائے تھے کہ گھر کی دیواریں تھرا گئیں۔
”کیا ہوا سرکار“ بھائی پریشان ہو گیا تھا
”کون ہے یہ“ بابا جی قہر و جلال میں چنگھاڑتے تھے ”کس نے لعنتی کوڑا لہرایا ہے“ بابا جی نے فضا میں ہاتھ بلند کئے تو ان کے سینکڑوں شاگرد ٹمٹماتے ستاروں کی طرح فضا میں تیرنے لگے اور پھر دوسرے ہی ثانئے آواز گونجی۔”حضرت .... ریاض شاہ کالا عمل کر رہا ہے“
”ریاض شاہ .... اوئے بدبخت تو کیا کر رہا ہے مجھے جہنمی آگ کے آتش آلود کوڑے مار رہا ہے۔ اوئے بدبخت انسان تو کیسا گناہ کر رہا ہے۔ یہ کالا عمل کرکے مجھے ختم کرنا چاہتا ہے لیکن قسم ہے مجھے خدائے لم یزل کی تو اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا“ یہ کہہ کر بابا جی نے اتنے زور سے مجھے تھپڑ مارا کہ میرا سر دیوار سے جا ٹکرایا اور میں بے ہوش ہو گیا
ہوش تو اس وقت آئے جب بڑے بھائی اور بابا جی آپس میں باتیں کر رہے تھے اور مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ دراصل مجھے کالی داس نے گمراہ کیا تھا۔ وہ بابا جی کے بہروپ میں مجھے چکمہ دیتا رہتا تھا۔ بڑے بھائی میرے فعل پر شرمند ہو کر بابا جی سے معافیاں مانگ رہے تھے۔ مجھے ہوش آ گیا تھا لہٰذا میں نے یہی دیکھا کہ اب میرے لئے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے تو میں بابا جی اور بھائی کے قدموں میں گر گیا اور اپنے گناہ اور غلطی کا اعتراف کیا۔ بابا جی نے معاف کر دیا اور کہا کہ وہ ایسے جن ہیں جو چلوں سے اسیر نہیں ہوتے صرف کمزور اور کم علم جنات کو عملیات و وظائف سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ کالی داس نے جان بوجھ کر مجھے گمراہ کیا تھا۔ اس کی بابا جی کے ساتھ جنگ رہتی تھی وہ بدی کا محافظ تھا اور بابا جی نیکی کے پرچارک۔ کالی داس اور بابا جی کی لڑائی بھی ایک طویل داستان ہے۔ خیر بابا جی نے مجھے معاف کر دیا اور میں نے بھی انہیں بتا دیا کہ میں ان کی قربت کا متمنی ہوں اور ان کے بغیر جی نہیں سکتا۔ بڑے بھائی تو نہیں چاہتے تھے کہ بابا جی میرے پاس آیا کریں لیکن میں کچھ اس انداز میں اپنی محبت کا اظہار کیا اپنی والدہ کا واسطہ دیا اور کہا کہ اگر انہوں نے میرے سر پر دست شفقت نہ رکھا تو میں بہک جاﺅں گا۔
پس بابا جی نے مجھے کچھ علوم سکھائے اور میرے پاس بھی آنے لگے لیکن کالی داس کا دیا ہوا علم مجھے تنگ کرنے لگا۔ کالا علم گندگی میں زندہ رہتا ہے اور روحانی نورانی علم پاکیزگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ میں کالے علم سے تائب تو ہو گیا ہوں لیکن ابھی تک میری کمر پر اس خبیث کی دستک جاری رہتی ہے۔ کل جب میں نے تمہیں قبرستان بھیجا تھا تو اس کالی داس نے ہی تمہیں پکڑنے کی کوشش کی تھی۔اب تم سوچ رہے ہو گے کہ بابا جی مجھ پر ناراض کیوں ہو رہے تھے۔ بابا جی کی ناراضی کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے ان سے اس قدر شدید محبت ہے کہ شاید ہی دنیا میں کوئی اور رشتہ اس محبت پر غالب آ سکے۔ بابا جی سے عقیدت اور محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ مجھ جیسا ضدی اور ہٹ دھرم انسان ان سے معافیاں مانگ لیتا ہے۔ وہ میرے لاڈ اور بے وقوفیاں برداشت کرتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی معاملہ بعض حدود کی قید سے باہر ہو جائے تو بابا جی ناراض ہوتے ہیں“ شاہ صاحب کہہ رہے تھے
”کیا کالی داس کے سامنے آنے کی وجہ سے بابا جی ناراض ہوئے ہیں“ میں نے دریافت کیا۔
”ایک وجہ تو یہ بھی ہے۔ لیکن اصل حقیقت اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے“ یہ کہہ کر سید ریاض شاہ نے اپنا تھیلا کھولا اور اس میں سے ایک تھیلی اور لمبی شیشی نکالی اس میں گہری اور سرخی مائل کوئی مائع شے تھی۔ انہوں نے شیشی کھولی اور مائع شے کے چند قطرے ہتھیلی پر ڈالے تو کمرے میں کافور سے ملتی جلتی مگر قدرے تیز مہک آنے لگی۔ شیشی بند کرکے تھیلی میں ڈال دی اور ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑ کر مائع شے اپنے بالوں میں لگانے لگے۔ میری محویت دیکھ کر بولے۔
”یہ تیل مجھے بابا جی نے بنا کر دیا ہے۔ یہ گھنگریالے اور گھنے بال اس تیل کی وجہ سے ہیں۔ بابا جی کا کہنا ہے کہ جس انسان کے پاس جنات قید ہوں یا اس کے پاس آتے ہوں تو وہ خوشبویات لگا کر رکھتا ہے۔ جنات کو خوشبویات بہت پسند ہوتی ہیں بلکہ بعض خوشبوئیں تو انہیں دیوانہ بنا دیتی ہیں جبکہ بہت سی خوشبوئیں تو ایسی بھی ہیں جو جنات اور بدروحوں کو قید کرنے سے قبل استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ تسخیری اور سحری قسم کی خوشبوئیں تیار کرنا دل گردے کا کام ہے۔ بابا جی نے مجھے ایسی ہی خوشبو سے تیل تیار کرکے دیا ہے۔ اس میں کافور بھی ہے اور سانپ کی چربی سے نکلا ہوا جوہر بھی اور بھی بہت سی اشیا اس میں شامل ہیں“
ان دنوں میرے سر کے بال کمزور ہو رہے تھے اور تیزی سے گر رہے تھے۔ میں بے اختیار ہو کر انگلیاں بالوں میں پھیرنے لگا تو شاہ صاحب دھیرے سے مسکرانے لگے۔
”لگاﺅ گے“
”کیا ایک ہی بار لگانے سے گرنا بند ہو جائیں گے“ میں نے تجسس سے پوچھا
”نہیں چند ہفتے تک لگانا ہی پڑے گا یہ تیل .... ویسے بڑا مہنگا اور نایاب ہے۔ بابا جی نے جن اطبا سے یہ نسخہ حاصل کرکے بنایا ہے بابا جی خود بھی حکمت جانتے ہیں“ شاہ صاحب کی باتوں میں میرے لئے دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ جنات کی دنیا کی حکایات ان کے معمولات اور تہذیب و تمدن سے متعلق بہت سی ان کہی باتیں ان کے ذریعے دریافت کی جا سکتی ہیں۔ پس یہ سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک حالات موافق رہیں گے میں ان سے کسی نہ کسی طرح یہ باتیں معلوم کرتا رہوں گا۔
”یہ لو .... تمہارے لئے تو ایک ہی قطرہ کافی ہو گا“ شاہ صاحب نے شیشی دوبارہ نکالی اور میری ہتھیلی پر تیل کا ایک قطرہ ٹپکا کر کہا ”ہاتھوں کو اچھی طرح رگڑ لو اور پھر ہتھیلیاں بالوں سے صاف کر لو۔ یہ بڑا زود اثر تیل ہے“
تیل کی مہک سے میرے دماغ سے بخارات اٹھنے لگے تھے۔ میرے جیسے بندے سے ایسی خوشبو جس میں ذہنی اشتہا اور مخموری بڑھتی ہے وہ کچھ ایسی ہی خوشبو تھی۔
”دماغ بھی روشن ہو جائے گا۔ نظر بھی تیز ہو گی۔ اس تیل کے بہت فائدے ہیں۔ تم خود جان جاﺅ گے۔ اگر کوئی بوڑھا بھی یہ تیل لگائے تو اس کی صحت بہتر ہو جاتی ہے“ شاہ صاحب معنی خیز انداز میں مسکرانے لگے۔ میرے لئے ان کی یہ بات بڑی عجیب تھی مگر میری حیرت اس وقت گم ہو گئی جب مجھے اپنی ہتھیلیوں اور سر پر تپش سی محسوس ہونے لگی۔ یوں لگنے لگا جیسے مارفیا کا ٹیکہ مجھے لگا دیا گیا ہے۔ اک نشہ یا خمار تھا یا تازگی جو جیون کو نئی نئی امنگوں سے بھر دیتی ہے۔ طبیعت میں افتادگی اور اضطرابی حساسیت بڑھ جاتی ہے۔ اچھا بھلا انسان بن پئے جھومنے لگتا ہے۔ میری آنکھوں میں بھی خمار بھری غنودگی اور تپش بڑھنے لگی۔ شاہ صاحب میری کیفیت دیکھتے رہے اور دھیرے دھیرے مسکراتے بھی رہے۔
”میں تمہیں یہ تیل دے دوں گا۔ تمہارے بال ہی نہیں تمہاری عمومی صحت بھی زبردست ہو جائے گی“ وہ بولے تو مجھے بابا جی کی ناراضی یاد آ گئی اور جہاں سے گفتگو منقطع ہوئی تھی وہاں سے دوبارہ شروع کر دی۔
”شاہ صاحب آپ کچھ بتا رہے تھے کہ بابا جی کس وجہ سے ناراض ہوئے تھے“
”ہاں“ وہ یاد کرتے ہوئے بولے ”میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں کالے علم سے تائب ہو گیا تھا لیکن میری کمر پر اب بھی شیطان تھا پڑا دینے آتا ہے۔ شیطان بڑا ڈھیٹ اور کمینہ ہے اس کی عزت نفس نہیں ہے۔ جتنا دھتکارو گے اتنا ہی قریب آنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی اپنی بے عزتی محسوس نہیں کرتا۔ زلیخا پر جب حویلی کی چڑیلوں نے حملہ کیا تو اس وقت میرے ذہن میں غیر ارادی طور پر کالا علم استعمال کرنے کا خیال پیدا ہو گیا۔ اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ حملہ بڑا زوردار تھا اور میرے پاس بابا جی بھی نہیں آ سکتے تھے۔ میرے پاس اصل طاقت تو بابا جی ہیں۔ میں نے زلیخا کو موت کے منہ سے بچانے کے لئے صرف یہی طریقہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اس کے سوا چارہ بھی نہیں تھا۔ پس میں گمراہ ہو گیا اور کالا علم استعمال کر گیا۔ لیکن مجھے اس وقت ہوش آ گیا جب زلیخا ہوش میں آئی۔ میں نے قبرستان میں تمہیں اس لئے بھیجا تھا کیونکہ میں نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس حملے کی کاٹ کا تقاضا تھا کہ بعض عملیاتی اشیا کو قبرستان میں دفن کر دیا جائے۔ جانا تو مجھے ہی چاہئے تھا لیکن میرے جانے سے یہ ہو سکتا تھا کہ کالی داس اور میرے درمیان معاملات بگڑ جاتے اور میں اس سے اپنا انتقام لینے پر تل جاتا۔ بابا جی کو یہ سب بہت برا لگا تھا۔ اگرچہ میں نے ان سے یہ کہا بھی کہ یہ سب مجیوری کے عالم میں کیا ہے مگر وہ نہیں مانے۔ میں نے بابا جی سرکار سے تقاضا کیا کہ یہ صرف اسی صورت ہو سکتا ہے کہ جب مجھے مزید علوم سکھا دیں۔ کسی ناگہانی کیفیت میں کالے علم سے استفادہ کرنے سے باز نہ آ سکوں گا۔ بابا جی یہ بات سمجھتے ہوئے بھی ناراض تھے۔ ان کا فرمانا تھا کہ تم نے شرک اور گمراہی کا راستہ کیوں اختیار کیا۔ میں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ بابا جی کا اندازہ درست تھا کہ کالی داس تمہاری جان لے سکتا تھا۔ مجھ سے اندازے کی بھول ہو گئی تھی“ میں نے محسوس کیا کہ شاہ صاحب اپنی غلطی تسلیم تو کر رہے تھے مگر ان کی آنکھیں چغلی کھا رہی تھیں۔ اس وقت میں اس قدر بھی قیافہ شناس اور جہاندیدہ نہیں تھا کہ کوئی رائے قائم کرکے اس کی سچائی سامنے آنے کا منتظر رہتا۔ میں تو بابا جی اور شاہ صاحب کے سحر میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا اور مجھے کوئی ایسی بات جو انسانی رویوں کے منفی پہلوﺅں کو آشکار کرتی تھی بری نہیں لگتی تھی۔
میں شاہ صاحب کے پاس خاصی دیر تک بیٹھا رہا۔ میری پڑھائی شدید متاثر ہو رہی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج رات پیپر کی دہرائی کروں گا لہٰذا میں نے شاہ صاحب سے کہہ دیا کہ آج رات میں دل لگا کر پڑھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بھی کہا کہ واقعی مجھے پڑھائی پر توجہ دینی چاہئے۔ میں ان سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آیا اور کتابیں لے کر بستر پر بیٹھ گیا اور تکئے سے ٹیک لگا کر کتاب کھول کر ورق گردانی کرنے لگا ۔معاً ایک سفید تہہ شدہ کاغذ کتاب میں سے سرک کر باہر نکل آیا۔ کسی نے نہایت تہذیب کے ساتھ یہ کاغذ تہہ کرکے کتاب میں رکھا تھا۔ مگر کس نے؟ میں نے تو یہ کاغذ نہیں رکھا تھا۔ میں نے کاغذ کھولا تو تحریر پرنظر پڑتے ہی ذہن میں کئی جھماکے ہوئے۔ بدن میں خوشگوار سی سنسنی پھیل گئی۔ یہ زلیخا کی تحریر تھی۔ اس نے پروین شاکر کی ایک نظم ”صرف میں ایک لڑکی ہوں“ تحریر کی تھی۔ نظم کیا تھی زلیخا کے دل کا جوار بھاٹا تھا۔ اس کی بے کسی کا نوحہ اور لاچارگی کا پیرہن تھی۔ میں نظم پڑھنے لگا۔
اپنے سرد کمرے میں
میں اداس بیٹھی ہوں
نیم وا دریچوں سے
نم ہوائیں آتی ہیں
تیرا نام لے لے کر
مجھ کو گدگداتی ہیں
کاش میرے پر ہوتے
ترے پاس اڑ آتی
کاش میں ہوا ہوتی
تجھ کو چھو کے لوٹ آتی
میں نہیں مگر کچھ بھی
سنگ دل رواجوں کے
آہنی حصاروں میں
عمر قید کی ملزم
صرف ایک لڑکی ہوں
میں نے یہ نظم کئی بار پڑھی تھی اور ہر لفظ میں مجھے زلیخا کا مغموم چہرہ نظر آنے لگا تھا۔ اس کی خاموش نگاہوں سے بہنے والے قطرے حرف حرف ٹپک کر اس کاغذ پر منتقل ہو گئے تھے۔ میں نے کتاب بند کرکے ایک طرف رکھ دی۔ میرا دل غم سے بھر گیا تھا۔ زلیخا ریاض شاہ سے شادی کی رضامندی ظاہر کر چکی تھی اور اب تو ایک آدھ روز بعد اس کی شادی تھی۔ پھر اس نے مجھے یہ نظم کیوں لکھ کر بھیجی تھی۔ کیا اس کے دل میں میرے لئے کوئی دلگداز جذبہ موجود تھا۔ مگر اس نے تو کبھی اظہار نہیں کیا تھا۔ شاید ہم دونوں خاموش وہاں سے اپنے قلبی معاملات کو ہواﺅں پر لکھتے رہے تھے جو آج ایک کاغذ پر منتقل ہو کر میرے پاس اڑ آیا تھا۔
میں بے قراری سے کمرے میں ٹہلنے لگا
”زلیخا .... تم نے بہت دیر کر دی ہے“ میں خود کو کوسنے لگا۔
”مگر احمق آدمی۔ تمہارا اس سے کیسا بندھن اور پھر ہماری عمریں ہی کیا ہیں۔ میں اس کے قابل ہی نہیں ہوں“ مجھے اس خیال سے بھی اب شرم آ رہی تھی کہ میں اپنے دوست کے گھر میں ہوں اور اس کی ہمشیرہ کے ساتھ میرے قلبی معاملات بڑھ رہے تھے۔ اگرچہ اس کے اظہار کا کبھی موقع نہیں ملا تھا مگر اب یہ ایسا بھی نہیں رہا تھا کہ میں یہ نہ جان پاتا کہ زلیخا میرے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔
اس وقت میرے لئے زلیخا کی یہ لکھی ہوئی نظم سوالیہ نشان بن گئی تھی اور ذہن میں بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ زلیخا نے یہ نظم اس وقت کیوں لکھی ہے اور اس کا مطلب کیا ہے۔ میں نے بالاخر فیصلہ کیا کہ مجھے کم از کم ایک بار زلیخا سے سے مل لینا چاہئے۔ لہٰذا میں اس کی طبیعت معلوم کرنے کے بہانے زنان خانے کی طرف چل دیا۔ میرے لئے اس گھر کے سبھی دروازے مہربان تھے اور مجھے کبھی اجنبی نہیں سمجھا گیا تھا۔ مجھ سے کسی کو پردہ بھی نہیں تھا۔ زلیخا اور چاچی باہر والے کمرے میں بڑے پلنگ پر بیٹھی تھیں۔ سامنے ایک ریشمی جوڑا کھلا پڑا تھا اور چاچی اس کی تہیں بٹھا رہی تھیں۔
”زلیخا۔ یہ تجھ پر بڑا سجے گا۔ میری جان تو پری لگے گی پری۔ بابا جی پریوں کے دیس سے تیرے لئے شادی کا جوڑا لے کر آئے ہیں“
زلیخا اپنی ماں کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی۔ ایک ٹک ریشمی جوڑے کو دیکھے جا رہی تھی۔ میں گلا کھنکار کر اندر داخل ہوا اور سلام لی تو چاچی مجھے دیکھتے ہی بولی۔
”آجا پتر .... دیکھ یہ کیسا جوڑا ہے“ چاچی اس کا عروسی جوڑا مجھے دکھاتے ہوئے بولیں۔
”بہت خوبصورت ہے۔ اپنی زلیخا پر خوب سجے گا“ میں نے چاچی کے دل کی بات کہی تو وہ شکوہ کے انداز میں بولی۔
”دیکھ میں نہ کہتی تھی لیکن یہ کچھ بولتی ہی نہیں۔ تو ادھر بیٹھ شاہد پتر .... میں تمہیں اس کے گہنے دکھاتی ہوں“ یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئیں۔ میں چارپائی کے پاس کھڑا رہا۔
”کب تک اس بیچارے جوڑے کو گھورتی رہو گی“ میں نے زلیخا کو مخاطب کیا
اس نے چہرہ اٹھایا اداس اداس نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ جس میں شکوے حرف حرف بن کر تیر رہے تھے۔
”نظم میں نے پڑھ لی ہے۔ زلیخا“ میں آہستگی سے رنجیدہ لہجے میں بولا ”یہ نظم مجھے بھیجنے کا مطلب؟“
وہ خاموش رہی۔ اس کے لب بے بس تتلی کی طرح پھڑپھڑائے مگر کوئی لفظ زبان سے ادا نہ کیا۔
”زلیخا کب تک خاموش رہو گی۔ بتاتی کیوں نہیں۔ کیا تم جانتی ہو اس کا مطلب کیا ہے۔ زلیخا تم نے مجھے ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے“ یہ بات کہتے کہتے بہت سے آنسو میرے گلے میں اٹک گئے۔ زلیخا مجھے تکے جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہزاروں شکوے تھے۔
”میری آنکھوں میں تو آنسو بھی نہیں آتے“ وہ گلوگیر اور شکستہ لہجے میں بولی ”جس لڑکی کے آنسو مر جاتے ہیں اس کی باتیں بھی دفن ہو جاتی ہیں۔ میں تم سے صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ تم یہاں سے چلے جاﺅ۔ میری بربادی کا تماشا نہ دیکھو تم۔ یہ سب لوگ نہیں جانتے مگر میں جانتی ہوں تمہیں اس حویلی سے اتنا پیار کیوں ہے۔ میں شاید تم سے آج کے بعد کچھ نہ کہہ پاﺅں گی۔ بس یہی التجا کرتی ہوں کہ واپس چلے جاﺅ اور پھر .... ہو سکے تو مجھے بھول جانا۔ میں ایک مجبور لڑکی ہوں۔ میرا اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے“
”زلیخا کاش .... تم پہلے بول پڑتی۔ کاش تم نے اپنے جذبوں کو زبان دی ہوتی تو میں .... میں اور تم آج اس دوراہے پر کھڑے نہ ہوتے“ میں بمشکل بولا اسی لمحہ چاچی اندر آ گئی اس نے ایک سرخ ڈبے میں زلیخا کے گہنے رکھے تھے وہ ایک ایک گہنا چوڑیاں کڑے مجھے دکھانے لگیں۔
”یہ ہمارا خاندانی گہنا ہے پتر ہے میں سارے زیور اپنی بچی کو دے دوں گی میری زلیخا شہزادی لگے۔“
”بدنصیب نصیبوں جلی شہزادی ماں“ زلیخا آہستہ سے بولی اور پھر اٹھ کر اندر چلی گئی۔
چاچی ایک سادہ عورت تھی اسے کیا معلوم تھا کہ زلیخا کے ان لفظوں میں کیا حکایات اور کیسے کیسے آسودہ ارمان چھپے ہوئے تھے
”چاچی وہ زیور کہاں ہے جو بابا جی لائے تھے“ میں نے پوچھا
”وہ تو شاہ صاحب کے پاس ہیں۔ انہوں نے کل مجھ سے لے لئے تھے کہ میں ان کا ڈیزائن تبدیل کرانا چاہتا ہوں“
”کل کس وقت“ میں نے بے اختیار ہو کر پوچھا
”کل صبح“ وہ بولیں
”جب پولیس آئی تھی اندر .... اس وقت“
”ہاں ہاں .... اس پانچ دس منٹ پہلے ہی آئے تھے مگر تو کیوں پوچھ رہا ہے“
”بس ویسے ہی .... میں نے سوچا کہ یہ گہنے دیکھے ہیں تو زلیخا کے سسرالی زیور بھی دیکھ لوں“ میں نے بات بدل دی۔ میں کچھ دیر بعد اپنے کمرے میں چلا گیا مگر اب پڑھائی میں میرا دل نہیں لگ رہا تھا۔ زلیخا کی شکوہ بھری آنکھیں میرے ذہن پر سوار تھیں اور میں خود کو کوس رہا تھا کہ تم نے بہت دیر کر دی ہے۔ بہت دیر اب تم کبھی زلیخا کو حاصل نہیں کر پاﺅ گے۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری اس بے قراری کا کوئی اور بھی تماشا دیکھ رہا ہے۔ جب خاصی دیر ہو چکی تو مجھے غازی کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔
”بھیا .... اب آرام سے بیٹھ بھی جاﺅ۔ کس پریشانی میں غرق ہو“
میں چونک پڑا۔ غازی میرے بستر پر دراز تھا
”بھیا تم کیا سمجھتے ہو میں اس بے قراری کو نہیں سمجھتا۔ میں کب سے تمہارے پیچھے جاسوسی کر رہا ہوں“
”کک کیا مطلب“ میں بڑبڑا گیا۔ ”تم کیا جانتے ہو“
”بھیا .... میں نہیں جانتا۔ تو پھر لعنت ہے میرے جن ہونے پر“ وہ افسردہ سا ہو کر بولا ”میرا بھائی ارمان مر گیا اور کہتے ہو میں نہیں جانتا۔ میں ابھی بچہ ہوں مگر میری عقل اور نظر بچوں جیسی نہیں ہے“
”میں گھبرا گیا دیکھو غازی تم کسی سے یہ بات نہیں کرو گے“ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔
”کس سے نہ کروں .... ملک صاحب سے یا بابا جی سے .... یا پھر شاہ صاحب سے“
”کسی سے بھی نہیں“
”بھیا .... اس بات کا صرف حویلی کے مکینوں کو پتہ نہیں ہے۔ بابا جی اور شاہ صاحب تو سب کچھ جانتے ہیں اور یہ جو نظم تم ابھی پڑھ رہے تھے یہ جب لکھی جا رہی تھی اور جب تمہارے کمرے میں پہنچائی گئی تب بھی وہ سب آگاہ تھے“
میں شرم سے پانی پانی ہو گیا اور میری زبان کو تالا لگ گیا
”بابا جی کیا سوچیں گے“ غازی استفہامیہ انداز میں بولا۔ یہی سوچ رہے ہو“
میں نے اثبات میں سر ہلایا
”مگر وہ تم سے نہیں پوچھیں گے۔ میں جانتا ہوں سرکار کو .... شاہ صاحب بھی اس کا ذکر نہیں کریں گے۔ وہ سب تم پر مہربان ہیں اور آج تمہیں بابا جی اپنے ساتھ کہیں لمبے سفر پر لے جانا چاہتے ہیں۔ میں ان کا پیغام لے کر آیا تھا لیکن تمہیں ہجر و وصل میں گرفتار دیکھ کر میں کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا
”غازی .... یہ بری بات ہے یار۔ دوسروں کے راز نہیں پڑتے“ میں نے شکوہ کیا
”ہم سے کیا راز .... ہم تو ہوا ہیں۔ ہماری نظریں تو ہر سو ہوتی ہیں۔ ہم سے کیا پردہ بھیا“ وہ بستر پر کھڑا ہو گیا۔ ”چلو اب بابا جی یاد کر رہے ہیں“ میں غازی کی معیت میں مہمان خانے میں پہنچا تو بابا جی سرکار اپنے چند مریدوں کے ساتھ ظاہری خدوخال کے ساتھ موجود تھے۔ شاہ صاحب رنگیلڑی کرسی پر بیٹھے تھے اور وہ سب مجھے اس انداز میں دیکھ رہے تھے جیسے عدالت میں جج اور وکیل کسی ملزم سے جرح کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ میں اندر سے بہت شرم اور خوف محسوس کر رہا تھا
”آﺅ ادھر میرے پاس آﺅ“ بابا جی نہایت مشفق انداز میں بولے
”سناﺅ پڑھائی کیسی جا رہی ہے“
”آپ کی دعا چاہئے۔ پڑھائی تو بس واجبی سی ہے“ میں نے نظریں جھکا کر کہا مجھ میں تاب نہیں تھی کہ بابا جی کی طلسماتی اور گہری سرمگیں نظروں سے نظر ملا سکتا۔ ان کی نظریں میرے اندر اتر جاتی تھیں اور ہر شے اتھل پتھل ہو جاتی تھی۔
”فکر نہ کرو .... انشاءاللہ تم پاس ہو جاﺅ گے۔ ہم سے قریب اور الفت رکھنے والے کسی امتحان میں ناکام نہیں ہوتے“ بابا جی نے میری کمر پر ہاتھ پھیرا اور بولے ”میں تمہیں آج ٹاہلی والی سرکار کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں گا۔ میں اور غازی تمہارے ساتھ ہوں گے“
”جی سرکار“ میں نے کہا ”کب جانا ہے؟“
”ابھی“ بابا جی نے کہا ”ٹاہلی والی سرکار آج اس قبرستان میں چلہ کاٹ رہے ہیں جہاں تم کل گئے تھے اور کالی داس تم پر حملہ آور ہوا تھا۔ آج ہم تمہارے ساتھ ہوں گے اور ہاں ”شاہ صاحب بارہ سیاہ بکروں کا بندوبست بھی ہو گیا ہے۔ چاولوں کی دس دیگیں میٹھی بھی تیار ہیں۔ ٹاہلی والی سرکار کی نذر نیاز کا اہتمام کرنا ضروری ہے پتر۔ تم نہیں جانتے یہ درویش لوگ کیا شے ہوتے ہیں۔ آج ہم تمہیں ایک درویش کی مجلس اور ہم لوگوں کے معاملات کی ایک جھلک دکھائیں گے“ میں اس رات بابا جی اور غازی کے ساتھ نہر کنارے قبرستان میں چلا گیا۔ بابا جی عام انسانوں کی طرح میرے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ جب ہم گاﺅں سے باہر نکل گئے تو آوارہ کتوں کا ایک غول کہیں سے نمودار ہوا اور پھر اچانک انہیں کیا ہوا وہ خوفزدہ ہو کر بھونکنے لگے یہ دیکھتے ہی بابا جی کچھ دیر کے لئے غائب ہو گئے اور کتے بھی خاموش ہو گئے۔
یہ ایک بڑا عجیب منظر تھا۔ کتے ابھی تک بھونک رہے تھے کتوں کے مسلسل بھونکنے سے گاﺅں کا چوکیدار بھی ہراساں ہو گیا تھا اور اس نے اونچی اونچی آوازیں دینا شروع کر دیں۔
”ہوشیار ہو جاﺅ بھئی۔ ہوشیار .... جاگتے رہو بھی جاگتے“
میں خود بھی پریشان ہو گیا کہ اگر چوکیدار ادھر آ گیا اور اس نے مجھے رات گئے قبرستان کی طرف جاتے ہوئے دیکھ لیا تو میں اسے کیا کہوں گا۔ بابا جی اور غازی غائب تھے ۔ میں اب ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا تھا۔ مجھے خوف تھا کتے اکھٹے ہو کر میری طرف نہ آ جائیں۔ یہ آوارہ کتے تھے جو اجنبی کو دیکھ کر اس کو کاٹنے سے باز نہیں آتے۔ میں نے اپنے بچاﺅ کے لئے فیصلہ کیا کہ اگر کتے میری طرف بڑھے میں تو میں درخت پر چڑھ جاﺅں گا۔ اتفاق دیکھئے کہ جب میں نے یہ فیصلہ کیا تو اس وقت تک کم از کم دس بارہ کتے اکٹھے ہو گئے تھے اور گروہ کی صورت میں میری طرف بڑھنے لگے تھے مجھے کبھی درخت پر چڑھنا نہیں آیا۔ اگر کوئی شاخ دار اور ٹنڈ والا درخت ہو اور اس پر اوپر چڑھنے کے لئے کوئی سہارا موجود ہو تو درخت پر چڑھ سکتا تھا۔ میں نے خود کو بچانے کے لئے درخت کی پناہ تو لی تھی مگر جب اس پر چڑھنے کا سوال آیا تو میرے پسینے چھوٹ گئے۔ میں نے اس کے تنے پر ابھرے ہوئے ایک ٹنڈ پر پاﺅں رکھا اور اس سے چمٹ کر اوپر چڑھنے کی کوشش کی تو تھوڑا سا اوپر جاتے ہی میری سانس پھول گئی اور میں درخت کے ساتھ پھسلتا ہوا نیچے آ گرا۔
اس وقت تک کتے میرے بہت قریب آ گئے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ کتے اب خوفزدہ ہو کر نہیں بھونک رہے بلکہ ان کے اندر خوفناکی اور جارحیت آ چکی تھی اسی لمحہ گاﺅں کی ایک گلی سے چوکیدار بھی برآمد ہو گیا۔ وہ اپنی زبان میں کتوں کو پچکارنے لگا تھا۔ اس کے ساتھ اور بھی لوگ نظر آ رہے تھے سب کے ہاتھوں میں لالٹینیں تھیں۔ میرے پاس بچاﺅ کا کوئی راستہ نہیں تھا اور پھر مجھے کچھ نہیں سوجھی تو میں اونچی اونچی آواز میں غازی اور بابا جی کو کوسنے لگا جو مجھے کتوں کے سامنے بے یارومددگار پھینک کر بھاگ گئے تھے۔ میں نے اس لمحہ بھاگنے کا بھی فیصلہ کیا مگر پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ میں اتنی تیز نہیں بھاگ سکوں گا، جتنی تیزی میں یہ کتے مجھ تک پہنچ سکتے تھے۔ مجھے بچاﺅ کی کوئی امید نظر نہ آئی تو میں نے اونچی اونچی آواز میں چوکیدار کو پکارنے کا فیصلہ کر لیا لیکن یہی وہ لمحہ تھا جب درخت کے اوپر شور بلند ہوا اور ایسا لگا جیسے درخت کے اوپر عذاب نازل ہو گیا ہے اور کوئی بہت بھاری بھرکم شے درخت پر گری ہے۔ میں بے ساختہ درخت کے نیچے سے ہٹ گیا اور پھر میں نے ایک اور عجیب منظر دیکھا۔
کتے اب درخت کی طرف دیکھ کر بھونکنا شروع ہوئے تھے مگر اب ان کی جارحیت دم توڑ گئی تھی وہ خوفزدہ ہو کر بھونکنے لگے تھے اور الٹے قدموں پیچھے کو ہٹتے جا رہے تھے۔