شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 70
عہد حاضر میں پاکستان بالعموم اور یورپ میں بالخصوص تحریک احیائے دین کے روح رواں عالمی مبلغ اسلام فخر اہلسنت حضرت پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی گزشتہ ساٹھ سال سے دین اسلام کی ترویج و ترقی میں دن رات مصروف کار ہیں۔ یورپ کے مسلمانوں میں دین اسلام کا شعور پیدا کرنے میں آپ نے جو دینی فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اس سے تاریخ اسلام میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ آپ مجدد اعظم قدس سرہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں مجدد اعظم قدس سرہ سے ملتاہے۔ آپ ایک انتہائی بردبار جید عالم دین، مبلغ اسلام، دانشور، فقیہ، محقق ، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ آپ نے 25سال ٹیکسٹائل ملز میں محنت و مزدوری کی۔ اپنا تمام مال و اسباب اور وقت دین اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ آپ کی نگرانی میں اس وقت عظیم الشان مساجد و مدارس کام کر رہے ہیں جہاں سے سینکڑوں طلباء حفظ قرآن اور اسلامی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ آپ اہلسنت کی کتب کی اشاعت سے بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور بہت سی کتب کی اشاعت کا انتظام کیا ہے۔ پاکستان میں فتاویٰ رضویہ کی طبع جدید میں اکثر سرمایہ آپ ہی نے فراہم کیا ہے۔ آپکو کتب بینی کا انتہائی شوق ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں آپ نے اسلامی کتب پر مشتمل ایک عمدہ قسم کا کتب خانہ قائم کیا ہے جو ذاتی اسلامی کتب خانوں میں منفرد ہے۔ آپ کی علمی اور ذاتی،دین اور طریقت کی خدمت کا یہ سفر بہت طویل اور انتھک ہے۔اس دوران آپ نے یورپ میں علم کے جو چراغ روشن کئے انکی روشنیوں نے بھٹکے ہووں کو ہدایت کا راستہ دکھا دیا اور آج کا موجودہ یورپ بالخصوص برطانیہ کا مسلمان اس بات کی قدرو قیمت کا اندازہ کرسکتا ہے کہ یہاں پیر صاحب نے نماز اور شعائر اسلام کے اہتمام کے لئے کتنا کچھ کیا ہے پیرانہ سالی میں بھی ہنوز یہ سفر جاری ہے۔ایک تسلسل ہے جو قافلہ لئے چل رہا ہے۔آپ کے تلمذ و رفقا اور مداحین و مریدین حتٰی کہ ناقد بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 69 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیاقت حسین نوشاہی پچاس برس سے آپ کے علمی و عملی جہاد میں شریک رہے ہیں۔انہوں نے سلسلہ نوشاہیہ کے حوالے سے گرانقدر کتب بھی تصنیف کیں ۔پیر صاحب کی شخصیت اور انکی ملی و دینی خدمات کے حوالے سے انہوں نے بتایا’’حضرت پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی سے پہلی ملاقات کا منظر آج بھی میرے قلب و نظرمیں محفوظ ہے۔ لگتا ہے برسوں پہلے کی ملاقات کا تاثر ہنوز تازہ ہے۔ پیر صاحب کی دلنشین شخصیت نے مجھے از حد متاثر کیا تھا۔ یہ جنوری1965کا دن تھا۔ سردیاں جوبن پر تھیں۔ میں چند ماہ پہلے ہی بریڈفورڈ پہنچا تھا۔ اس وقت میری عمر14سال تھی۔ میرے والد گرامی نے میرے روشن مستقبل کے لئے مجھے دینہ کے گاؤں ڈھوک چھمالا کے سکول سے اٹھا کر بریڈ فورڈ میں تعلیم دلانے کی تمنا کی تھی اور مجھے یہاں سکول میں داخل کرا دیا تھا۔ ہمارے گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ والد محترم اللہ والوں اور علمائے عظام کا بہت احترام کرتے تھے۔
جس روزکی میں بات کر رہا ہوں۔ اس سے پہلے مجھے علم نہیں تھا کہ ہمارے گھر میں آنے والے یہ روشن جبیں شخصیت کون ہے۔ والد صاحب نے بتایا کہ حضرت سیدنا نوشہ گنج بخشؒ کی نسل ارجمند سے تعلق رکھنے والے حضرت پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے گاؤں کی زندگی میں پیروں کو دیکھا تھا اور یہی خیال تھا کہ یہ پیر صاحب بھی ایسے ہی ہوں گے لیکن میرا تاثر اور نظریہ غلط ثابت ہوا۔پیر صاحب نے سر پر گرم ٹوپی اور گرم اوور کوٹ سے خودکو ڈھانپ رکھا تھا۔ والد صاحب نے میرا تعارف کروایا اور عرض کی ’’حضور میں نے صاحبزادے کو اچھی تعلیم کے لئے یہاں بلایا ہے۔ ‘‘
پیر صاحب نے فرمایا ’’تعلیم حاصل کرنے کا مقصد بہت ارفع ہے اور یہ علم کے لئے کی جانے والے ہجرت بہت بڑی فضیلت رکھتی ہے۔ لیکن آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا صاحبزادہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرے اور ولایت کی گندی اور مادی زندگی سے محفوظ بھی رہے تو یہ آپ کا علمی جہاد ہوگا۔‘‘
پیر صاحب کی گفتگو میرے دل میں گھر کر گئی۔ والد صاحب بھی متاثر ہوئے لہٰذا مجھے سکول کے ساتھ ساتھ درس نظامی کے لئے حضور قبلہ پیر صاحب کے پاس بھیج دیا گیا۔پیر صاحب مجھے پڑھاتے،آپ انداز بہت اچھا تھا۔ اب پچاس برس ہو چکے ہیں۔ میں نے پہلی ملاقات سے آج تک پیر صاحب کی صحبت میں رہنا پسند کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیر صاحب بہت محبت فرماتے۔ دین کی تعلیم کے لئے جدوجہد فرماتے، گفتگو منظم اور مدلل کرتے۔ تعصب و نفرت سے گریز نے آپ کی شخصیت کے تاثر اور کام کو تقویت اور مقبولیت عطا فرماتی تھی۔ آپ سلسلہ نوشاہیہ کی اشاعت سے زیادہ شریعت کے احکامات کا درس دیتے اور مساجد و تعلیمی اداروں کی تعلیم اور عملی تربیت پر توجہ دیتے۔ آپ ہمیشہ فرماتے رہے ہیں کہ علم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو علم نفع نہیں دیتا۔ آپ اخلاص کا پیکر تھے۔ آپ کے دل میں اپنی قوم کی بے راہروی دیکھ کر بہت درد اٹھتا تھا۔ آپ بندے کو جس حسن سلوک سے نیک کاموں کی ترغیب دیتے ، بندہ اسے قبول کرتا۔ اس دور میں برطانیہ میں اسلام کی بات کرنا بالخصوص گمراہ مسلمانوں کے سامنے تبلیغ کرنا اور مساجد کی تعمیر کا سوال اٹھانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ آپ کی سخت مخالفت کی جاتی مگر آپ نہایت تحمل و صبر سے مخالفین کو برداشت کرتے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیتے۔(جاری ہے)
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں