تنازعات کا شکار بچے

تنازعات کا شکار بچے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے سال 2024ء کو تنازعات کا شکار بچوں کے لیے تاریخ کا بدترین سال قرار دے دیا،اس کی ر پورٹ کے مطابق 47کروڑ 30لاکھ بچے جنگی ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، دنیا بھر میں ہر چھٹا بچہ بندوق کی گولی کے سائے تلے رہنے پر مجبور ہے،تنازعات والے علاقوں میں رہنے والے یا لڑائی کی وجہ سے اپنے گھروں سے زبردستی بے گھر ہونے والے بچوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔تنظیم کی ہفتے کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اِس وقت بچوں کی ریکارڈ تعداد تنازعات سے متاثر ہے،ان کے بنیادی حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں،وہ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں،سکول جانے سے قاصر ہیں، زندگی بچانے والی ویکسینز سے محروم ہیں اور ان کی زندگیاں بھی ہر وقت خطرے میں ہیں۔اِس وقت دنیا کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ تنازعات کا سامنا ہے اور عالمی سطح پر 47کروڑ 30 لاکھ سے زائد بچے متاثرہ علاقوں میں رہ رہے ہیں۔جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کی تعداد 1990ء کی دہائی میں تقریباً 10 فیصد تھی جو بڑھ کر آج تقریباً 19 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔2023ء کے اختتام تک تنازعات اور تشدد کی وجہ سے چار کروڑ 72 لاکھ بچے بے گھر ہو ئے تھے جبکہ 2024ء کے رجحانات ہیٹی، لبنان، میانمار، فلسطین اور سوڈان میں تنازعات میں شدت کے باعث اضافی نقل مکانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دنیا کی کل آبادی میں بچوں کی تعداد 30 فیصد ہے تاہم پناہ گزینوں کی آبادی کا اوسطاً  40 فیصد اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کی تقریباً 49 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔یوکرین میں 2024ء کے پہلے 9 مہینوں کے دوران ہی بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 2023ء کی کل تعداد سے تجاوز کر چکی تھی۔ہیٹی میں اس سال بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں ایک ہزار فیصد اضافہ ہوا۔رواں سال مارچ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے”انرا“ کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کا کہنا تھا کہ صرف چار ماہ کے دوران علاقے میں کم از کم 12,300 بچے ہلاک ہوئے جبکہ 2019ء سے 2022ء تک دنیا بھر میں مسلح تنازعات میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد12,193تھی۔اس کے علاوہ وہاں تقریباً 10لاکھ بچے بے گھر ہوئے،جن میں سے 17ہزار بچے ایسے تھے،جنہوں نے اپنے والدین کو کھو دیا  یا ان سے بچھڑ گئے۔ان تنازعہ زدہ علاقوں میں بچوں کی تعلیم بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے،ایک اندازے کے مطابق متاثرہ ممالک میں پانچ کروڑ 20 لاکھ بچے سکول جانے سے قاصر ہیں۔ غزہ، سوڈان، یوکرین، کانگو اور شام میں سکولوں کی عمارتوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ان علاقوں میں بچوں میں غذائی قلت کے معاملات بھی تشویشناک حد تک پہنچ چکے ہیں، مسلح تشدد اور تنازعات کی وجہ سے بہت سے علاقے خوراک کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں،ان بچوں کو خسرہ، پولیو اور دیگر بیماریوں کا خطرہ بھی لاحق ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وہ  بچوں کی ایک نسل کو دنیا کی بے قابو جنگوں کے لیے کولیٹرل ڈیمیج بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ کیتھرین رسل کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کے سکولوں پر بمباری کی جاتی ہے، گھر تباہ کر دیے جاتے ہیں،خاندانوں کو توڑ دیا جاتا ہے، وہ نہ صرف تحفظ اور زندگی کو برقرار رکھنے والی بنیادی ضروریات سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ کھیلنے، سیکھنے یہاں تک کہ بچہ بننے کا موقع بھی کھو دیتے ہیں،دنیا ان بچوں کو ناکام بنا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس لہر کو بدلنے،بچوں کی زندگیوں کو بچانے اور بہتر بنانے کے لیے مزید کام کرنا ہوگا۔ تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2023 سے اقوام متحدہ نے 22ہزار 557 بچوں کے خلاف ریکارڈ 32 ہزار 990 سنگین خلاف ورزیوں کی تصدیق کی، یہ تعداد سلامتی کونسل کی نگرانی شروع ہونے کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

کسی بھی علاقے میں تنازعے کے اثرات بہت گہرے اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ جنگ اور مسلح تصادم نہ صرف معاشرتی اور اقتصادی نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ متاثر بچے ہوتے ہیں۔جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کی زندگی محض جسمانی مسائل تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ ان کے ذہن و دماغ اور نفسیاتی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔بچے اپنے گھر میں خود کومحفوظ تصور کرتے ہیں،پُرسکون رہتے ہیں لیکن جنگ کے سائے ان سے یہ احساس چھین لیتے ہیں۔ان کا بچپن تو محرومیوں سے بھر ہی جاتا ہے لیکن باقی زندگی بھی خوشحال نہیں رہتی، گھر تباہ ہو جاتے ہیں، خاندان بکھر جاتے ہیں، والدین ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، ہر طرف بے یقینی و بے چینی کی کیفیت ہوتی ہے۔تشدد، موت اور تباہی کے مناظر ان کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں جو ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ خاندان کے افراد کو کھونے کا غم اور جنگ کے دوران خود کو غیر محفوظ محسوس کرنا ان کے اندر گہرے ذہنی دباؤ کو جنم دیتا ہے۔یہ صورتحال ان کے رویے میں نمایاں تبدیلیاں لاتی ہے۔ ان کے اندر اعتماد کی کمی،غیر متوازن جذباتی رویے اور سماجی تعلقات میں مسائل جنم لیتے ہیں۔ جنگ زدہ بچوں کی یہ حالت صرف ان کی زندگیوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ معاشرے کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر ان بچوں کو بروقت نفسیاتی مدد اور تعلیمی سہولیات فراہم نہ کی جائیں، تو یہ ان کے لیے ایک دائمی مسئلہ بن سکتا ہے، جس کا اثر ان کی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے۔

یہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج ہے،یونیسیف کی رپورٹ ان تنازعات میں حصہ ڈالنے والے تمام ممالک کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ کسی بھی لڑائی یا تنازعے میں بچوں کا کوئی حصہ نہیں، ان کا اس سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی سب سے زیادہ اثرات ان ہی پر مرتب ہو رہے ہیں۔بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں، تنازعات والے علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو جسمانی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت، تعلیم اور زندگی کی بحالی کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دینا پوری دنیا پر لازم ہے،یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور کوئی بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اگر آج بھی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کیا گیا اور تنازعات ایسے ہی جاری رہے تو آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ ہولناک ہو گا۔بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں بہترین ”حال“ مہیاکرنا ضروری ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -