2024ء اور نیا سال۔۔۔مناسب حکمت عملی

    2024ء اور نیا سال۔۔۔مناسب حکمت عملی
    2024ء اور نیا سال۔۔۔مناسب حکمت عملی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زندگی کے سفر کا بھی ایک اپنا تسلسل ہے۔ سال شروع ہوتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے آغاز اور خاتمے کی کیفیات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ نیو ایئر نائٹ منائی جاتی ہے، جس میں بہت کچھ ہوتا ہے اور اس سارے کچھ کے پیچھے خوشی کے جذبات ہوتے ہیں۔ پوری دنیا ہیپی نیو ایئر کے شور شرابے سے گونج اُٹھتی ہے۔ البتہ جانے والے سال کا سورج چپکے چپکے سے غروب ہو جاتا ہے اور صرف سوچ بچار کرنے والوں کے کان میں کوئی نہ کوئی پیغام دے جاتا ہے۔ یہ کہنا بھی بجا نہ ہو گا کہ اپنے دامن میں بڑی خوبصورت اور تلخ یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ (تو نئیں تے تیریاں یاداں ای سہی۔یاداں دے سہارے جی لاں گے) جتنے دم حیاتی کے ہیں وہ تو انسان نے بسر کرنے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہنس کر گزار لے یا پھر رو کر سفر زیست گزار لے۔ غم اور خوشی ہی کا نام زندگی ہے۔ انسان کچھ دیر روتا ہے اور کچھ ہنس کر گزار لیتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں سوچ بچار کرنے کا بھی عمل ہے۔ رونے کو ہنسنے میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جا سکتا ہے یا کہ نہیں۔ یہی فکر نسل آدم کو باقی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو نئے سال کا آنا اپنی جگہ اہم ضرور ہے، لیکن جانے والے سال کے دامن میں چھپنے والے واقعات پر توجہ دینے کی بھی بہت ہی ضرورت ہے۔ کاش ہم اس بات پر خصوصی توجہ دیتے تو ہمارا آنے والا سال خود بخود بہتر ہو جاتا اور ہم ہیپی نیو ایئر کی محافل منعقد کرنے میں بھی حق بجانب ہوتے اب تو صورتحال کچھ یوں ہے حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ حق دار کو حق دینے کا عزم اور وہ بھی محض بیانات کی حد تک۔ خودپسندی اور توسیع پسندی ہمارا مشن اور اس مشن کی تکمیل کے لئے آخری حد تک جائیں گے اور اپنے آپ کو منوانے کے لئے ساری حدیں عبور کریں گے اور اس کے بعد آنے والے سالوں میں عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ نشان بھی شاید ایک وقت پر آکر مٹ جائے گا(مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے)

وائے!اس بات کا ہم سب کو اندازہ ہو جاتا تو بھائی بھائی کا کبھی بھی حق نہ کھاتا۔ بہن کو خوشی خوشی  وراثت کا حصہ دیا جاتا۔ دوست دوست کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالتا۔ پڑوسی اپنے ہمسائے کو بھوکا نہ سونے دیتا۔ چھوٹی بات پر پگڑیاں نہ اچھالی جاتیں اور دنیا کو خون خرابہ نہ دیکھنا پڑتا۔ اسی طرح استحصال کی بنیاد پر اپنے جیسوں کو محکوم نہ بنایا جاتا۔ انسان اور کتے کی مراعات میں اتنا فرق ضرور ہوتا کہ کسی کو یہ نہ کہنا پڑتا(اک بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا۔۔۔بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا) کوئی کشمیری اپنی آزادی کے حصول کے لئے مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں مار نہ دیا جاتا۔ آزادی ہر شخص کا حق ہے اور اس حق سے لوگوں کو محروم نہ کر دیا جاتا۔ فلسطینیوں کو توسیع پسندی کی بدولت بے رحمی سے اتنا نہ مارا جاتا کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ جاتے۔امن اور آشتی کا راگ الاپنے والے سارے ادارے خاموش تماشائی نہ بنتے اور لوگوں کی آنکھوں میں مٹی جھونکنے کے لئے بار بار قراردادیں منظور کرکے ورقے کالے نہ کئے جاتے۔ جب دِل اندر سے کالا ہو جاتا ہے تو پھر ایک نہ ایک دن منہ بھی کالا ہونا ہوتا ہے۔ استحصالی قوتیں جبرواستبداد اور ظلم وقہر سے اِسی لئے تو روز بروز بدنامی اپنے سر لے رہی ہیں۔ مذکورہ صورتحال یقینا دردناک ہوتی ہے، لیکن اس کی بھی ایک محدود عمر ہے۔ایک روز زنجیروں نے ٹوٹ گرناہے اور زندانوں نے منہ کے بل گرنا ہے۔ قائم ودائم ذات خدا کی ہے۔ ہاں جس نے انسانیت کی بات کی اس کی بات باقی رہنے کا امکان ہوتا ہے اور اس کے چرچے آسمانوں اور زمینوں میں برابر ہوتے ہیں۔ ہر سال کے آخر پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ورنہ فطرت کا ایک اپنا کردار ہوتا ہے اور فطرت بدکرداروں کا بالآخر محاسبہ کرتی ہے اور اس کے سامنے رکاوٹیں خودبخود ہٹا دی جاتی ہیں۔ بقلم خود کو معنوی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کی کتابیں اس تفصیل کے ساتھ بھری پڑی ہیں۔ کتاب کھولنے کی ضرورت ہے چودہ طبقات روشن اور روشنی میں سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔

2024ء کا سورج بہت کچھ دیکھ کر غروب ہونے جارہا ہے۔ جب غروب آفتاب کا وقت ہوتا ہے سرخی مائل سماں ہوتا ہے۔ ہر اک چیز ماند سی پڑ جاتی ہے۔ دِل بھی گرفتہ ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات تو آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک درد ناک کہانی ہے۔ اب کئی سال آئیں گے، لیکن 2024ء کا سورج کبھی بھی طلوع نہیں ہو گا۔ ہم چیزوں کو لائٹ انداز سے لینے کے عادی ہوگئے ہیں یا پھر یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم آگے دوڑ پیچھے چوڑ کے مصداق زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اِسی میں ہماری بہتری ہے ورنہ درددل اور آہ و بقا اور پھر آہ وزاری۔ رورو کر انسان مر کیوں نہ جائے۔ طریقے دو ہیں ماضی کو یکسر بھلا دیا جائے اور رونق میلہ، ڈھول ڈھمکا، شوروغوغا اور پھر ہیپی نیو ایئر نائٹ کے سارے لوازمات۔دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ ماضی پر غور کیا جائے اور آنے والے سال کی باقاعدہ پلاننگ کی جائے۔ آنکھیں اور دماغ دونوں کھلے ہوں۔ دِل ماند نہ پڑے حوصلے پست نہ ہوں اور زمینی حقائق پر پوری نظر ہو۔ آنے والا سال ایک نئے جذبے ولولے اور جوش سے شروع ہوگا۔ یہ جوش ہوش کے ہم پلہ ہو گا اور ہم اپنی گفتار اور کردار سے پوری دنیا کو پیغام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان حالات میں ہمارے حالات تو بہتر ہوں گے ہی ہم دوسروں کے لئے ماڈل بھی بن جائیں گے۔ سیانے نئے ماڈل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے  اور کسی مصلحت کا شکار بھی نہیں ہوتے ہیں۔ مصلحتوں نے ہماری مت مار دی ہے اس زاویے سے بھی نئے سال کی ککھ سے جنم لینے والے واقعات کا نفسیاتی جائزہ لینا ہو گا۔جائزہ پیش کرنے کے لئے علمی استعداد کا بھی اندازہ لگانا ہو گا اور آج کل ہر طرف آئی ٹی کا بول بالا ہے۔ آئی ٹی کے میدان میں ہم پہلے ہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ نئی نسل کو علم وحکمت کی بات سمجھانا ہوگی اور آج کی بات انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ سسٹم کے تابع نیا سال گزارنے کا عہد کریں اور پھر اس عہد کو نبھانے کے لئے رات دن ایک کرنا ہو گا تب جاکر گلوبالائیزیشن میں ہم بھی پورے اعتماد اور قد کاٹھ سے کھڑے ہوکر بات کریں گے اور ہماری بات کو دنیا کان کھول کر سننے پر مجبور ہوگی۔ تاہم فی الحال ہم مجبور لوگ ہیں اور سب ہماری مجبوریوں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دھونس، دھاندلی اور اوپر سے دھمکیاں۔ تراہ نکل گیا ہے۔ ہمت کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اینٹ کا جواب آئی ٹی سے دینے کی ضرورت ہے۔ سانپ بھی مر جائے گا اور لٹھ بھی بچ جائے گی۔ ہم بھی محفوظ اور ہمارے بچے بھی محفوظ ومامون۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -