کانٹے تقسیم کرنے والا معاشرہ
کل مارننگ واک کے دوران ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے ایک واقعہ سنایا۔ ایران کے ایک بادشاہ جب رات کے وقت کسی دوسرے شہرکے دورے سے واپس آئے تو انہوں نے دیکھا محل کا ایک دربان سخت سردی کے باوجود عام سے کپڑوں میں ڈیوٹی دے رہا ہے۔ انہیں بڑا تعجب ہوا۔ انہوں نے دربان سے پوچھا کیا سردی نہیں لگتی تو اس نے کہا لگتی ہے بادشاہ سلامت، پھر گرم کپڑے کیوں نہیں پہنتے، اس نے کہا میرے پاس نہیں ہیں۔ بادشاہ سلامت، بادشاہ نے یہ سن کر کہا میں ابھی تمہیں محل میں لے جا کر کپڑے بھجواتا ہوں۔ محل میں داخل ہوئے تو بادشاہ کو ملکہ نے اپنے دکھڑے سنانے شروع کر دیئے۔ بادشاہ کو دربان یاد نہیں رہا۔ صبح جب وہ باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا دربان سردی سے ٹھٹھر کر مر چکا ہے۔ بادشاہ وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایک ذرا سی غفلت دربان کی جان لے گئی۔ یہ واقعہ سنا کر ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے پوچھاکیا ہم نے کبھی اپنے اردگرد دیکھا ہے، کون سردی سے مر رہا ہے۔ پھر انہوں نے کالونی کے گارڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ہر جگہ یہ گارڈ رات کو سخت سردی میں ڈیوٹی دیتے ہیں، کیا ان کے لئے سردی سے بچنے کا کوئی انتظام کیا جاتا ہے؟ یہ تو بڑی زیادتی ہے کہ بادشاہ جن دربانوں کے پہرے کی وجہ سے چین کی نیند سوئے، وہ لوگ سردی میں ٹھٹھر کر مر جائیں۔ سچی بات ہے اس واقعہ کو سن کر مجھے یوں لگا ایک جرم ہے جو معاشرہ کئے جا رہا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بیگانے ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر ہم نے اپنی زندگی کو محور بنا کر یہ بھلا دیا ہے کہ ہمارے اردگرد بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو زندگی کو ایک امتحان سمجھ کر گزار رہے ہیں۔ ان کے لئے اگر ہم نہیں سوچتے اور اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں تو یہ بھی ایک جرم ہے۔شاید اس کابھی کہیں حساب دینا پڑے۔ پھر خیال آیا کہ یہ تو کانٹے تقسیم کرنے والامعاشرہ بن گیا ہے، یہاں تو پھولوں کی دکانیں بند ہو چکی ہیں۔ کسی کو راحت دے کر سکون لینے کی باتیں قصہء پارینہ بن چکی ہیں اب تو بس ہر کوئی اپنے سکون کے لئے، جنونی ہوا پھرتا ہے۔ معاشرے کی تقسیم کو ہی دیکھ لیں، اتنا بڑا تفاوت تو کسی معاشرے کے لئے زہرِ قاتل ہوتا ہے، جتنا بڑا ہمارے ہاں پیدا ہو چکا ہے۔ ایک طرف امارت کی چکاچوند مثالیں ہیں اور دوسری طرف غربت و افلاس کی کہانیاں ہیں۔ دونوں انتہائیں بن گئی ہیں۔ پہلے ایک مڈل کلاس ہوا کرتی تھی، تھوڑا سا فرق مٹ جاتا تھا، رات اور دن جیسا فاصلہ نہیں تھا۔ اب ایسا نہیں، مڈل کلاس بھی غربت کی لکیر پر پہنچ گئی ہے، دوسری طرف ایک طبقہ ہے جو امارت کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے اسے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کہ جن کروڑوں عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر بلکہ کھانے پینے کی اشیاء تک سے دور کرکے ہم اس ملک پر حکمرانی کررہے ہیں، وہ اگر تنگ آمدبجنگ آمد کی صورت جاگ گئے تو اس ملک کاکیا بنے گا، پاکستان میں ہر قانون، ہر فیصلے اور ہر ظلم غریبوں پر ہی ٹوٹتا ہے جن کے گھر کھانے کو کچھ نہ ہو انہیں ٹیکسوں اور مہنگے یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے ادھ مواء کر دیا جاتا ہے۔ جب اوپر کی سطح پر یہ بے حسی ہے تو معاشرے میں بھی اس کا اثر تو آنا ہی ہے۔
کل ہی میں نے دو باتوں کو نوٹ کیا۔ناصر محمود شیخ جو ایک متحرک نوجوان ہیں، مجھے کہنے لگے آج میں آپ کو دو انتہائیں دکھاتا ہوں۔یہ دو انتہائیں درحقیقت ہمارے سماج کی اس تقسیم کو ظاہر کررہی ہیں، جو اب نفرت کی خلیج بنتی جا رہی ہے۔ وہ مجھے پہلے ایک بڑے شاپنگ مال کے برانڈڈ سٹور پرلے گیا۔ جہاں ریڈی میڈ کپڑے فروخت ہوتے تھے۔ میں نے دیکھا وہاں اتنا رش ہے جیسے مفت تقسیم کئے جا رہے ہوں۔ اس سے پہلے جب ہم باہرپہنچے تھے تو ہمیں گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ناصر محمود شیخ جو حال ہی امریکہ سے واپس آیا ہے، کہہ رہا تھااتنا رش تو میں نے وہاں نہیں دیکھا۔کچھ دیر یہاں کا نظارہ دکھانے کے بعد وہ مجھے ملتان کے حسین آگاہی بازار لے گیا۔ جہاں گرم کپڑوں کا لنڈا بازار لگتا ہے۔ وہاں اس قدر رش تھا کہ برانڈڈ سٹور میں نظر آنے والا رش اس کے مقابلے میں بہت چھوٹا لگا۔ میں سمجھ گیا ناصر محمود شیخ نے آج یہ حرکت کیوں کی ہے۔ وہ بتانا چاہتا تھا کہ ملک میں دو طبقوں کے درمیان خلیج کتنی گہری ہوچکی ہے تاہم ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہاکہ یہ بازار ایک نعمت ہے، رحمت ہے، اگر یہ نہ ہو تو سوچیں کہ غریبوں کو سردی زندہ رہنے دے گی۔ پھر اس نے ایک اور بات کی جس نے مجھے اس کی شخصیت کے اس گداز گردی سے ملوایا جو کوئی نہ کوئی فلاح کا راستہ نکال لیتا ہے۔ اس نے کہا یہ جو لوگ آپ یہاں خریداری کرتے دیکھ رہے ہیں، ان سے بھی کئی زیادہ لوگ گھروں میں پہنچے ہیں جن کے پاس اس سستے اور اترن والے بازار میں بھی خریداری کے پیسے نہیں۔ وہ سردی سے ٹھٹھرتے ہیں اور بازوؤں کو بغلوں میں دبا کر وقت پاس کرلیتے ہیں۔ میں یہ کرتا ہوں کہ یہاں سے گرم کپڑوں کی خریداری کر لیتا ہوں۔ پھر انہیں مختلف علاقوں میں جا کر خاموشی سے گھروں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ اس سے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے اندر وہ گرمی آ گئی ہو جو زندگی کی حرارت سے عبارت ہے۔
میں سوچنے لگا ایران کا بادشاہ تو غفلت کا مرتکب ہوا تھا اور اس کی غفلت کے باعث دربان سردی سے مر گیا تھا، لیکن ہم کیوں غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ کوئی بادشاہ ہی ہو تو دوسروں کی مدد کرے۔ مدد کے لئے تو صرف دل بڑا ہونا چاہیے جو لوگ برانڈڈ سٹوروں پر جا کر ہزاروں روپے کا ایک سوٹ خریدتے ہیں، اگر ان کے دل میں بھی یہ جذبہ آ جائے کہ غریبوں کی مدد کے لئے انہیں سردی سے بچانے کے لئے کچھ کر گزریں تو شاید درد کی وہ ٹیسیں کم ہو جائیں جو سردی میں مناسب کپڑے نہ ہونے سے بدن میں اترتی ہیں۔ بات صرف خود غرضی کے حصار سے نکلنے کی ہے۔ میں جب کبھی یہ خبر پڑھتا ہوں کہ کسی گھر سے دو دن پرانی لاش برآمد ہوئی، کیونکہ متوفی اکیلا اس گھر میں رہتا تھا اور ہمسایوں کو اس کی خبر نہیں تھی، تو میں اس معاشرے کی بے حسی پر غمزدہ ہو جاتا ہوں۔ دور کی خبر تو کیا رکھنی ہم اپنے ہمسایوں سے بھی لاتعلق ہوچکے ہیں۔ میرے ایک دوست پروفیسر ریٹائرمنٹ کے بعد دیہات میں منتقل ہو گئے۔میں نے کہا حضرت دنیا بڑے شہروں کا رخ کررہی ہے، آپ دوبارہ گاؤں چلے گئے ہیں تو انہوں نے کہا شہرمیں رہ کر دیکھ لیا۔ لوگوں میں نفسا نفسی بہت زیادہ ہے۔ اب تو جنازے پر بھی نہیں جاتے، اس کے مقابلے میں گاؤں میں آج بھی ایک ایسی زندگی ہے، جس میں ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹنے کی روایت موجود ہے، ویسے بھی میں نے مرنے کے بعد اسی گاؤں میں دفن ہونا ہے، اس لئے زندگی میں ہی آ گیا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں ہم شہر میں رہنے والوں کا تو کوئی گاؤں بھی نہیں، ہم کیاکریں؟