قسط نمبر 85۔ ۔ ۔شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانواد ۂنوشاہیہ کی خدمات
مولانا محمدبوستان قادری نے چک سواری میر پور آزاد کشمیر میں جنم لیا اور1957-58میں انگلینڈ میں قیام پذیرہوئے۔ وہاں ایک فیکٹری میں ملازمت کی، پھر اگلے تیس سال تک اپنا کاروبار کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے بریڈ فورڈ میں اپنا ایک مدرسہ بھی قائم کیا ۔ مولانا محمدبوستان قادری نے اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلویؒ کے خلیفہ قطب مدینہ حضرت ضیاء الدین مدنیؒ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔
سلسلہ و خانواد ۂ نوشاہیہ کی خدمات ۔ ۔ ۔ قسط نمبر84 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مولانا صاحب اب تک آٹھ کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ کم و بیش 22سال تک وہ حضرت پیر سیّد معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی کے ساتھ دینی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اس دوران انہیں پیر صاحب کی علمی و روحانی شخصیت کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت سیّد معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا محمدبوستان قادری نے بتایا ’’میں حضرت پیر صاحب کے ساتھ ہائی سکول میں پڑھتا رہا ہوں۔ لڑکپن سے ہی پیر صاحب شرافت اور پاکیزگی کا پیکر تھے۔ سکول کے زمانے میں بچے شرارتیں کرتے رہتے ہیں مگر میں نے دیکھا کہ پیر صاحب کا ہر کوئی ادب کرتا تھا۔ آپ کلاس روم میں بھی فطری شرافت اور شرم و حیا اختیار کرتے ۔ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک ونرمی سے پیش آتے۔ کوئی فضول بات نہیں کرتے تھے۔اس وقت بھی شعائر اسلامی پر سختی سے پابند تھے۔ آپ مادزادصوفیاء اولیاء کی اولاد پاک ہیں۔ لہٰذا آپ پر ہمیشہ اسلام کی خدمت کا جذبہ غالب رہتا۔ میں آپ سے پہلے برطانیہ آگیا تھا۔ آپ1962ء میں تشریف لائے۔ مگر میری آپ سے ملاقات1965ء میں ہوئی۔ آپ ایک فیکٹری ورکر ۷۷کی حیثیت سے رات کی شفٹ میں کام کرتے اور دن کو آرام کرنے کی بجائے دین کا کام انجام دیتے ۔آپ کی مصروفیت اور جذبہ وعمل قابل دید تھا۔ بہت کم آرام کرتے تھے۔ آپ نے جب دیکھا کہ یہاں کے مسلمان بے راہروی کا شکار ہیں، نماز سے دور ہو چکے ہیں اور دین کی طرف ان کی رغبت کم ہو چکی ہے تو آپ نے دینی عزم و استقلال کے ساتھ تبلیغ شروع کر دی۔ آپ ایک دینی پلیٹ فارم فراہم کرنا چاہتے تھے جس کے تحت برطانیہ میں اشاعت دین کا کام جاری کیا جا سکتا تھا۔ میں بھی اپنا مدرسہ چلا رہا تھا۔ آپ نے صوفی نور حسین اور سید افضل قادر کو ایک وفد کی صورت میں میرے پاس بھیجا جس کے بعدمیں آپ کے پاس حاضر ہواتھا۔ آپ نے مجھے دین کی خدمت کے لیے ایک ساتھ چلنے کی تجویز فرمائی ۔ آپ نے1963میں جمعیت تبلیغ الاسلام کی بنیاد رکھی تھی جو دین مصطفوی کے لیے برطانوی مسلمانوں میں بیداری کے لیے کام کر رہی تھی ۔مجھے پیر صاحب کی جدوجہد اور استقامت نے بہت متاثر کیا۔ آپ نے اسلامی ممالک سے بڑے بڑے علماء کویہاں تبلیغ اسلام کے لیے دعوت دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور پھر اللہ کریم نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی۔ حضرت پیر صاحب کے دل میں ہمیشہ امت مسلمہ کا درد پنہاں رہا ہے۔ آپ نے یورپ میں اہل سنت کے پلیٹ فارم کو مضبوط کرنے کے لیے بے پناہ کامیاب کوششیں کی ہیں۔ آپ نے جب ورلڈ اسلامک مشن کی بنیاد رکھی تو میں بھی اس کے بانی ورکروں میں سے تھا۔ ہماری تجویز تھی کہ پیر صاحب کو ورلڈ اسلامک مشن کا صدر ہونا چاہئے لیکن آپ نے فرمایا کہ اس بڑے مشن کے لیے ایک بڑی قد آور شخصیت کو صدر ہونا چاہئے۔ ایک بڑے کنونشن میں شاہ احمد نورانی کو صدر بنایا گیا۔ میں بھی اس کونسل میں ایک رکن کی حیثیت سے شامل تھا۔ ورلڈ اسلامک مشن کے پہلے اجلاس میں اہل سنت کی بڑی قدر آور شخصیات نے شرکت فرمائی تھی۔ پیر صاحب نے بالخصوص بھارت اور پاکستان سے جید علماء و پیران عظام کو دعوت دی تھی۔ سب شخصیات نے حضرت پیر معروف حسین شاہ عارف نوشاہی کی جدوجہد پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ آپ اندازہ کیجئے کہ بریڈ فورڈ کے ایک گھر سے آپ نے دین کی اشاعت کا جو سلسلہ شروع کیا اسے پورے یورپ تک پھیلا دیا۔آپ نے یورپ کے تبلیغی دورے کئے اور اپنی عالمانہ ومبلغانہ طریقت سے شریعت کا کام کیا۔ اس دور میں جب برطانیہ میں ایک بھی مسجد موجود نہیں تھی مگر اب وہاں پیر صاحب کی مساعی سے 600مساجد ہیں اور نماز پنجگانہ کے علاوہ دینی تعلیمات کے لیے اسلامی مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ یہ حضرت پیر صاحب کی شخصیت کا اعجاز ہے کہ اللہ نے آپ جیسے درویش و عارف کو تبلیغ اسلام کے لیے منتخب کیا اور پھر کامیاب فرمایا۔ آج دیکھا جائے تو اس سے بڑی آپ کی کرامت اور کیا ہوگی کہ آپ نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو داڑھیاں رکھوا دیں، نمازی اور دینی سکالر بنا دیا۔ شریعت و طریقت کی تربیت کا بہترین نظام موثر کیا۔ آپ نے اہل سنت کے جید علماء کو برطانیہ بلا کر انہیں یورپ میں تبلیغ اسلام کے لیے اپنا بھرپور تعاون فرمایا۔پیر صاحب ایک نفیس طبع اور با ذوق علمی شخصیت ہیں۔ آپ کا روحانی کمال اور علمی استدلال لوگوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں روایتی پیر اپنے خلفا کو ہی دین و طریقت کے لیے آگے کرتے ہیں وہاں پیر صاحب نے اپنے خلفا کی بجائے اہل ترین علماء و اکابرین اہلنست کو آگے کیا اور اپنے آپ کو ہر طرح کی نمود و نمائش و ستائش سے پیچھے رکھا۔ (جاری ہے)