یوم جمہوریہ گمشدہ نشانِ منزل!
زبیر بسرا
23 مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا جو اب تک کے بنائے گئے آئین میں سے سب سے بہتر تھا اگر یہ کہا جائے کہ یہ پاکستان کی حقیقی آزادی کا دن ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان کو Dominion (ڈو مینین) پاکستان کہا جاتا تھا یعنی حکومت بنانے اور چلانے کا نظام پاکستانی عوام کے پاس جزوی طور پر تھا۔
پاکستان کا پہلا آئین چودھری محمد علی نے تیار کیا تھا جو ایک سینئر بیوروکریٹ تھے ان کا تعلق کسی ایلیٹ کلاس سے نہیں تھا، عوام میں سے تھے، عوامی مزاج رکھتے تھے۔ تحریک آزادی کے مقاصد کو بخوبی سمجھتے تھے۔اس لیے انہوں نے آئین بھی ایسا تیار کیا جو عوام اور پاکستان کے بہترین مفاد میں تھا اگر وہ آئین منسوخ نہ کیا جاتا تو یقینا آج پاکستان دنیا کے دس ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا، نہ ہی پاکستان دو ٹکڑے ہوتا۔
عوامی مفاد کا یہ آئین جس میں انسانی حقوق، زرعی اصلاحات اور قانون کی حکمرانی قائم کیے جانے اور پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا جانا شامل تھا جو ہمارے مغربی آقاوں کو ناگوار گزرا، کیوں کہ وہ اپنے کاسہ لیس زمینداروں،وڈیروں، سرداروں اور گدی نشینوں کے ذریعے پاکستان پر حکمرانی کرنا چاہتے تھے جب کہ اس آئین میں ہر کسی کو مساوی حقوق حاصل تھے۔ وڈیرہ شاہی بھی صدیوں سے اپنے اپنے علاقے کی عوام پر کی جانے والی حکمرانی کو ختم ہوتا دیکھ رہی تھی۔ اس لیے 1958ء میں ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے آئین معطل کر دیا گیا۔ مارشل لاء کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ (Marshall Law means no Law)
مارشل لاء کے تحت محمد ایوب خان پاکستان کے صدر اور افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف دس سال تک رہے۔ تحریکِ پاکستان کے مخلص رہنماوں پر ایبڈو قانون کے ذریعے پابندی لگا دی گئی فوجی حکومت نے 1962ء میں نیا آئین نافذ کیا جس میں عام آدمی کو براہ راست ووٹ دینے کی اجازت نہیں تھی۔صرف ممبر یونین کونسل ہی ووٹ کاسٹ کرتے تھے۔ اسی قانون کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو دھاندلی کر کے ہرایا گیا حالانکہ قائداعظمؒ کے بعد وہ ملک کی سب سے محترم اور ہر دل عزیز خاتون تھیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے ان کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔
ذولفقار علی بھٹو صدر ایوب خان کی وزارت میں وزیر خارجہ تھے۔ کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کی آڑ میں انہوں نے صدر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کر دی کہ صدر ایوب جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کے میز پر ہار گے ہیں اس تحریک کے نتیجے میں صدر ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور جاتے جاتے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر گئے اس طرح اس طویل عرصہ میں آئینی حکمرانی قائم نہ رہی۔
جنرل یحییٰ نے 1971ء میں عام انتخابات کرائے جس میں شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی جبکہ ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے صرف مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔ اکثریتی پارٹی کو حکومت نہ بنانے دی گئی جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔
بچے کھچے پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو جو یحییٰ خان کے دور حکومت میں ان کے نائب بھی رہے تھے پاکستان کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گے۔ عوامی راج کا دعویٰ کرنے والے بھٹو بھی جاگیردار تھے اس طرح وڈیرہ شاہی بدستور حکمران رہی۔ ان کی آمرانہ اور جابرانہ حکومت کے خلاف قومی اتحاد نے تحریک چلائی جو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ پر منتج ہوئی۔
جنرل ضیاء الحق شہید اگرچہ بہت پرہیزگار اور حقیقی معنوں میں مجاہد تھے۔ اسلامی دنیا اور عوام میں بہت مقبول بھی تھے لیکن وہ آئین جو بھٹو نے بنایا تھا پھر منسوخ کر دیا گیا۔ ان کے بعد قائم ہونے والی بینظیر کی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنایا گیا آئین بحال کر دیا جو مشرف کے دور حکومت تک قائم رہا لیکن پے درپے ترامیم کے بعد اس آئین کا حلیہ بگڑ چکا تھا۔
میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں امریکہ اور یورپ کی مخالفت کے باوجود پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کر کے ہندوستان کی برتری ختم کر دی۔مغرب کو یہ جسارت ناگوار گزری اور وہ اپنے بندے جنرل مشرف کو برسر اقتدار لے آئے۔ جنرل مشرف نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظربند کیا اور نواز شریف کی حکومت ختم کر کے ان پر طیارہ اغوا کرنے اور متعدد الزامات کے تحت مقدمے قائم کردیے،یوں آئین تقریباً نو سال تک سرد خانے میں پڑا رہا۔
آئین کے ساتھ بار بار کھلواڑ ہوتا رہا اس لیے ملک کی ترقی رک گئی۔ وڈیرہ شاہی آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ہر حکومت میں برسر اقتدار رہی ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت تو دن بدن کمزور ہوتی گئی جبکہ چند سیاسی خاندانوں اور ان کے ہم نوا علماء کی اپنی معیشت اربوں کھربوں تک پہنچ گئی۔
اب عوام مسلم لیگ کی موجودہ حکومت سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں کہ 1956ء کے آئین میں جو قوانین بنائے گئے تھے۔ انہیں اسی شکل کے تحت نافذ کیا جائے، وہی آئین مکمل طور پر بحال کیاجائے ہر کسی کو مساوی حقوق دیے جائیں انصاف، تعلیم، صحت اور دیگر ضروری سہولتیں عوام کی دہلیز پر دستیاب ہوں تاکہ پاکستان اپنے اس گم شدہ نشان منزل کی راہ پر گامزن ہو کر حقیقی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلا سکے۔ ماضی کی غلطیوں اور دشمن کی شرانگیزوں کا خاتمہ کرنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔