انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 31
18ویں صدی کے آخر میں ہونے والی آباد کاری سے تقریباً40ہزار سال قبل آسٹریلیا کے مر کز ی علاقے اور جزیرہ تسمانیہ کو آج کے تقریباً 250 آسٹریلیائی باشندوں سے آباد کیا گیا ۔ شمال کے قریبی علاقوں سے ماہی گیروں کی گاہے بگاہے آمد اور 1806ء میں ایک جرمن جہازراں کے ذریعے یو رپین دریا فت کے بعد 1770ء میں آسٹر یلیا کے آدھے مشرقی حصے پر بر طانیہ نے حق ملکیت کا دعوی ٰ کر دیا ۔ بر طانیہ نے یہاں ابتدائی آباد کاری سزا کے طور پر بحر الکاہل کے جزیروں میں بھیجے جانے والے مجرموں کے ذریعے ساؤتھ ویلز کا لونی کی بنیا د رکھنے سے کی ۔ بعد ازاں 26 جنوری 1788ء کو اس نے آسٹریلیا میں با قاعدہ آبادکا ری شروع کر دی۔آنے والے دنوں میں آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی اور براعظم کی دریا فت کا عمل بھی مکمل ہو گیا ۔ 19ویں صدی کے دوران دیگر پانچ بڑی خود مختار کر اؤن کا لو نیا ں قائم کر دی گئیں ۔ یکم جنوری 1901ء میں 6کا لونیوں کی ایک فیڈریشن وجود میں آئی اور آسٹریلیا کی دولت مشتر کہ کی بنیا د رکھی گئی ۔ فیڈریشن کے قیام سے آسٹریلیا ایک مضبوط آزاد جمہوری سیا سی نظام کو اپنائے ہوئے دولت مشتر کہ کی قلمر و بن گیا۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آسٹریلیا کی آبادی 2کروڑ 24لاکھ اور رقبہ 86ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس کی 60فیصد آبادی ملک کے مشہور شہروں سڈنی ، میلبورن ، بر سین ، پرتھ، اور ایڈیلیڈمیں بستی ہے ۔ قومی دارالخلافہ کینبرہ ہے جو آسٹریلیا کے صدر مقام کے علاقے میں واقع ہے۔ ابر جنیز اور مور یز اس کے قدیم باشندوں میں شامل ہیں ۔ فنی لحاظ سے ایڈوانس اور صنعتی آسٹریلیا ایک خو شحال اور کثیر الثقافتی ملک ہے جو صحت ، معیار زندگی ، انسانی ترقی ، عوامی تعلیم ، معاشی آزادی اور سیاسی حقوق اور معاشرتی آزادیوں کے قومی کار کر دگی کے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں شاندار نتائج کا حامل رہا ہے ۔ اس کے شہر دنیا کے ان بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں جو معیا ر زندگی ، ثقافتی سر گرمیوں اور رہن سہن میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔ آسٹریلیا اقوام متحدہ ، جی20 ،او ای سی ڈی، دولت مشتر کہ اور ڈبلیوٹی اوکا رکن ملک ہے۔
براعظم آسٹر یلیا کے دو اہم ممالک ہیں ۔ ان میں ایک آسٹریلیا اور دوسرا نیوزی لینڈ ہے ،کتاب’’بین الاقوامی انسانی سمگلنگ‘‘میں ان دو ممالک میں پائی جانے والی انسانی سمگلنگ کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے، آسٹریلیا کی آب و ہوا اور معاشی استحکام نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذو ل کر رکھی ہے۔ یہاں پر مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہیں اور شادی کے لیے آسانی سے مقامی عورت نہیں ملتی ۔ سرکاری طور پر قحبہ چلانے کا لائنس جاری کیا جاتا ہے۔ قریبی ممالک حتی کہ یو رپ اور ایشیاء سے متعدد عورتیں سمگل کر کے آسٹریلیا لا ئی جاتی ہیں ۔ اقوام متحدہ کے مطابق یو رپی ساحلوں سے ہر سال 70ہزار افراد کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں ۔ ان میں سے 38ہزار کے قریب اٹلی اتر جاتے ہیں ۔ اسی طرح 2008ء میں 51ہزار سے زیادہ افراد کشتیوں کے ذریعے صومالیہ سے یمن کی بند گاہ عدن سے سر حد عبور کر گئے ۔ اسی سال 2سو سے زیادہ افرادآسٹریلیا میں پنا ہ لینے کے لیے سمندری راستوں کے ذریعے ملک میں داخل ہوئے ۔ ان میں زیادہ تر عراقی اور افغانی تھے۔ اسی سال (2008ء) آسٹریلیا نے مہاجرین کی 13ہزار سے زیادہ تعداد کو قبول کیا ۔ ان میں کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ اگر آسٹریلیا میں یہی پالیسی باقی رہتی تو کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کا سیلاب امڈآتا۔
سمگلر ز ہر سال یہا ں ہزاروں کی تعداد میں افراد کو غیر قانونی طریقے سے بھیجتے ہیں۔ آسٹریلیا سمگل شدہ افراد کی منزل ہے اور حکومت کو معلوم ہے کہ سمگلرز چھوٹے گروپوں پر مشتمل ایسے مجرمانہ ریکارڈ کے حامل افراد اہوتے ہیں جو بو گس دستا ویزات تیار کرنے کے لیے بڑے اور منظم گروپوں پر انحصار کر تے ہیں ۔ آسٹریلیا میں مشرقی ایشیاء ، جنوب مشرقی ایشیاء ، مشرقی یورپ ، چین ،کو ریا اور تھائی لینڈ سے لوگوں کو سمگل کر کے لا یا جاتا ہے ۔ آسٹریلیا میں غیر ملکی پناہ کے حصول کے لیے ایک بڑی تعداد جمع ہے جن میں چین ، جنوبی کو ریا ، اور انڈیا کے باشندے شامل ہیں ۔ یہ لو گ اپنی مر ضی سے آسٹریلیا میں کام کرنے کے سلسلے میں گئے لیکن بعدازاں استحصال کا شکار ہو ئے ۔ ’’آسٹریلین کرائم کمیشن ‘‘کی رپورٹس سے ظاہر ہو تا ہے کہ جسم فروشی میں ملوث عورتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں دھوکہ اور فریب کا عمل دخل بڑھ گیا ہے ۔ غیر قانو نی قیام اور مطلوبہ دستاویزات کی عدم مو جودگی کے باعث ایسی عورتیں معاہدے کی شرائط طے کر تے وقت برابر کی حیثیت نہ رکھنے کی وجہ سے آجروں اوراور مالکوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں ۔ آسٹریلیا میں سمگلنگ کے شکار افراد کے متعلق درست اعدادو شمار نہیں ملتے ۔ تاہم آسٹریلین این جی اوز کے ’’Project Respect‘‘کے مطابق ہر سال ایک ہزار افراد سمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان میں ایسے افراد شامل نہیں جو پہلے سے اضافی قر ضوں کے بوجھ کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں یا جن کا قرض چکا دیا گیا ہو ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ آسٹریلیا کی طر ف عورتوں کے سمگل ہونے کی ایک بڑی وجہ ملک میں ان کی طلب میں اضافہ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ مقامی عورتیں جسم فروشی کے دھندے کو پسند نہیں کرتی ہیں ۔ آسٹریلیا میں ایسی عورتوں کو جنسی فعل کے لیے پسند کیا جاتا ہے جو مر د کی خواہش کے مطابق عمل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں ۔ اس کے علاوہ مر د عورتوں پر جنسی تشدد بھی کرتے ہیں ۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے قحبہ خانوں میں ایشیا ئی عورتوں کی طلب اس تصور کے ساتھ منسلک ہے کہ نسلی اعتبار سے ان عورتوں میں مطلوبہ خصوصیا ت پائی جا تی ہیں ۔ مثال کے طور پر ایسی عورتوں کے بارے عام تا ثر یہ ہے کہ یہ زیادہ ’’اطاعت گزار ‘‘ اور تشدد کو برداشت کرنے والی ہوتی ہیں ۔ اس کتاب کے کسی دوسرے حصے میں ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ مغرب میں جنسی فعل کے دوران جن باتوں پر موت کی سزا مقرر ہے وہ ایشیاء میں آزادی کے ساتھ مردوں کو سر انجام دینے کے لیے میسر ہیں ۔اس سو چ نے غربت ذدہ ایشیائی ممالک سے عورتوں کی ایک بڑی تعداد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سر کاری قحبہ خانوں میں جمع کر دی ہے ۔
’’آسڑیلین انسیٹیوٹ آف کرایمنلوجی ‘‘کی لیبر ٹریفکنگ اور سرکاری سیکس انڈسٹری کے با ہر جسم فروشی پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محنت کرنے والوں کا استحصال اور جسم فروشی میں جنسی استحصال کی وجہ ایسے واقعات کا منظر عا م پر نہ آنا ہے۔ اس رپورٹ میں انسانی سمگلنگ کے معلوم واقعات جو زراعت کے شعبے ، صحت صفائی ، ہسپتالوں ، تعمیر اور مینو فیکچرنگ انڈسٹری یا کم رسمی شعبوں جیسا کہ گھریلو کام کاج اور گھروں میں کسی کی مد د کر نا شامل ہیں میں ہونے والے استحصال کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ جب جبری مشقت کے لیے سمگلنگ کے معمولی واقعات چھپائے جائیں تو یہ جرم آہستہ آہستہ پھیلنے لگتا ہے لہذ ااس عمل کی ابتدائی نگرانی کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ کسی ایک واحد واقعہ کو بھی اعلیٰ سطح تک لے کرآئیں ، بصورت دیگر وہ غفلت کے مر تکب تصور ہو ں گے اور قانون ان کو مجرم ہی خیا ل کرے گا ۔ ہوم منسٹری کی رپورٹ واضح کر تی ہے کہ گھریلو خدمات انجام دینے والے اور زراعت اور تعمیر کے شعبے سے وابستہ افرادکا استحصال اگر چہ معمولی نو عیت کاہی ہے اس کا نو ٹس لینا انتہا ئی ضروری تھا ۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے کئی ایک اداروں اور متعلقہ افراد کے انٹر ویوز کیے گئے جن میں جبری مشقت کے لیے انسانوں کو سمگل کرنے والے بھی شامل تھے۔ دیگر شریک افراد کو اس با ت کا قطعی علم نہ تھا کہ آسٹریلوی قوانین کا اطلاق سیکس انڈسٹری سے باہر بھی کیا جائے گا ۔ جبری مشقت کے لیے سمگلنگ کے غیر مر تب شدہ واقعات ایک ایسے ما حو ل میں ہوتے ہیں جہاں آسٹریلیا میں غیر ملکی ورکرز کے خلاف غیر قانونی رویہ پایا جاتا ہو۔ اس طرح انسداد سمگلنگ اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے اکادکا واقعات کو انتہا ئی اہم سمجھنا چاہیے اور بیرونی ما حول پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو سخت مجرمانہ رویے کے ابتدائی عوامل کو جنم دیتا ہے ۔ اس رپورٹ میں قانونی اصلاحات کے متعلقہ مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ انسانی سمگلنگ کے متعلقہ قوانین سادہ ، عام فہم ، شفاف اور جرم سے متعلق ہونے چاہیں ۔ اس میں جبری مشقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔
یہ رپورٹ ان تمام ممکنہ پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے جو انسانی استحصال کا سبب بن سکتے ہیں یا جن سے سمگلر ز یا متعلقہ ادارے مالی فوائد حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہوں۔ آسٹریلیا میں ابتدائی محکموں کی کا ر کر دگی بہتر بنانے اور سماجی رابطہ مہموں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کر نے پر زور دیا گیا ہے۔ خاص طو رپر لیبر کے شعبے کو بہتر بنانے کی مختلف تجا ویز طلب کی گئی ہیں ۔ یہ رپورٹ اگر چہ ضرورت سے زیا دہ مفصل ہے اور ان جزئیات کابھی احاطہ کر تی ہے جن کے امکانا ت بہت کم پا ئے جاتے ہیں ۔ آسٹریلیا میں انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کی مدد کے لیے متعلقہ اداروں کے رابطہ نمبرز جگہ جگہ آویزا ں پو سٹر ز اور نشری اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام الناس تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ مثلاًسمگلنگ کا شکار فرد اگر 000 (تین دفعہ زیرو ) ملائے تو یہ ملک کے ڈی پی پی سے رابطہ میں آسکتا ہے ۔ اسی طرح ایسے افراد آسٹریلیا میں سفارت خانے ، پولیس کے فرنٹ ڈیسک اور قحبہ خانے کے کلا ئنٹس سے مدد حا صل کر سکتے ہیں ۔ آسٹریلیا میں غیر سر کاری تنظیموں کی مدد سے انسانی سمگلنگ کے خا تمے کے کئی ایک منصوبے جا ری کیے گئے ہیں ۔ ان میں ’’سکا رلٹ الائنس ، آسٹریلیا سیکس ور کرز ایسو سی ایشن ، انسدا د غلامی کا منصوبہ ، عورتوں کی سمگلنگ کے خلاف اتحاد ، انسانی سمگلنگ کے خلاف آسٹریلو ں کیتھو لک مذہبی محاز اور پر ا جیکٹ ریسپیکٹ قابل ذکر ہیں ۔ اسی طر ح انسانی سمگلنگ کی قومی گول میز تنظیم کا مقصد دولت مشترکہ کی حکومت اور غیر سرکاری تنظیمو ں کے درمیان شراکت کے ذریعے اس جرم پر قابو پانا اور آسٹر یلو ی حکومت کی رٹ کو مضبوط کر نا ہے۔
آسٹر یلیا مختلف خطوں میں اس جرم کی نشونما روکنے کے لیے کر وڑو ں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ذیل میں چند ایک منصوبوں کے نام اور ان پر خرچ ہونیوالی رقوم کا مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ ’’ایشیا ئی علاقائی انسانی سمگلنگ کا منصوبہ ۔‘‘ اس منصوبے کا مقصد انسانی سمگلنگ پر قابو پا نا تھا ۔ دوسرا ایشیا ئی مما لک میں جہا ں سے انسانوں کو بڑ ی تعداد میں سمگل کیا جاتا ہے وہا ں کے معاشی و سماجی حالات میں بہتری لا نا بھی اس منصوبے میں شامل تھا ۔ اس پر 5سالوں میں 21ملین آسٹریلین ڈالر (2کر وڑ 10لاکھ ڈالر )خرچ کیے گئے ۔ یہ منصوبہ 2006ء میں شروع ہو ا اور 2011ء میں ختم ہو ا ۔ اس کے ذریعے ایک مو ثر اور با ہمی آواز کے فروغ کے لیے ایشیا ء کے ان ممالک پر تو جہ دی گئی جو انسانی سمگلنگ کا ذریعہ تصور کیے جاتے ہیں ۔ شروع میں ا س منصو بے میں لا ؤ ، کمبو ڈیا ، تھا ئی لینڈ اور بر ما شامل تھے ۔ 2007ء میں انڈو نیشیا کو بھی شامل کر لیا گیا ۔ اسی طر ح یو نسیف کی طر ف سے چھ ممالک میں بچوں کی نگہداشت کا منصو بہ شروع کیا گیا ۔ اس منصو بے کے لیے فلپائن میں حکومت کو بچو ں کے حقو ق کے نفاذ اور ’’فوجی چائلڈ فرنیڈلی مو و منٹ ‘‘کے نفاذ کے لیے آسٹریلیا نے 22.8 ملین آسٹریلوی ڈالر فراہم کیے ۔ ا س پر و گرام میں بچو ں کی تعلیم ، ان کی نشو نما کے پرو گرامز اور تحفظ شامل تھا ۔ اس کے علاوہ بچو ں کو سمگل ہونے سے اور مسلح چپقلش کے خطوں میں ان کی ضرورت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات بھی اس منصوبے میں شامل تھے۔ 1997ء میں آسٹریلیا نے چین کے ساتھ ایک منصو بہ شروع کیا جس میں چین میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹیکنیکل تعاون کے پرو گرام کو شامل کیا گیا ۔ آسٹریلیا نے چین میں بنیادی انسانی حقو ق کو یقینی بنانے، ان کے تحفظ کے لیے چین کی مدد کی ۔ اس منصوبے میں سرکاری اہل کاروں کو تربیت دینا اور عورتوں اور بچوں کو سمگلنگ سے تحفظ دینے کے طر یقے وضع کرنے کے ساتھ ساتھ ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا گیا ۔ ا س میں وتینا م اور تھا ئی لینڈ سے بھی سرکاری اہل کا روں کو شامل کیا گیا ۔ اس میں آسٹر یلیا نے ایک کثیر رقم خرچ کی ۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں