دینی مدارس کی رجسٹریشن
صدر آصف علی زرداری نے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 2024ء کی منظوری دے دی، صدر کے دستخط کے ساتھ ہی یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے، اب دینی مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے مطابق ہوگی اور اِس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ترجمان قومی اسمبلی کا کہنا تھا یہ مسئلہ افہام و تفہیم سے حل کرلیا گیا، وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے بل سے متعلق سمری کی منظوری دے دی۔ واضح رہے کہ 1860 کے سوسائٹیز ایکٹ میں ترمیم کا بل 20 اکتوبر کو سینیٹ اور 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا، اِس ایکٹ کی منظوری کے بعد دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی سفارشات کی بنیاد پر مدارس کی رجسٹریشن کے عمل میں ترامیم کی منظوری دی جس سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے درمیان پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے بل پر پیدا ہونے والا تنازعہ حل ہوگیا۔دینی مدارس رجسٹریشن بل میں سال 1860ء کے سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی دینی مدرسہ کسی بھی نام سے پکارا جائے، اِس کی رجسٹریشن لازمی ہو گی،بغیر رجسٹریشن مدرسے کو بند کر دیا جائے گا۔سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 2024ء کے مطابق اِس ایکٹ کے نفاذ سے پہلے قائم ہونے والے مدارس کو چھ ماہ میں جبکہ اِس کے بعد قائم ہونے والے دینی مدارس کو ایک سال میں رجسٹریشن کروانا ہو گی،جن دینی مدارس کے ایک سے زیادہ کیمپس ہیں اُنہیں صرف ایک رجسٹریشن کی ضرورت ہوگی۔ صدرِ مملکت آصف زرداری نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے جس کے سب سیکشن 5، 6 اور 7 میں ترامیم کی گئی ہیں۔دینی مدارس کو مختلف مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے، قرآن و سنت یا اسلامی فقہ سے متعلق کسی بھی موضوع کے مطالعے کی ممانعت نہیں ہو گی۔ بِل کی شق 5 کے مطابق ہر مدرسہ اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند ہوگا۔ بل کی شق 6 میں کہا گیا ہے ایکٹ کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن کیلئے کسی بھی مدرسے کو اِس وقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن درکار نہیں ہوگی۔ نئے قانون کے مطابق ہر مدرسہ اپنی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ اور حسابات کی آڈٹ رپورٹ رجسٹرارکو جمع کرانے کا پابند ہو گا، کسی قسم کی شدت پسندی اور مذہبی منافرت پر مبنی مواد شائع کرنے کے علاوہ پڑھانے پر بھی پابندی ہوگی۔جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے نزدیک اُنہوں نے مدارس بل کو قانون کا درجہ دلوا کر آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی جنگ جیت لی ہے، اُنہوں نے اتحاد تنظیمات مدارس اور وفاق المدارس العربیہ کے تمام ذمہ داران کومبارکباد بھی پیش کی۔
پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ہمیشہ زیر بحث رہا ہے،ماضی میں ان کی رجسٹریشن ’سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860ء‘ کے تحت ہوتی تھی جس کے لئے انتظامیہ کو متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ رجسٹریشن کا کوئی مرکزی نظام نہ ہونے کی وجہ سے مدارس کے نصاب اور فنڈنگ پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا۔جنرل مشرف کے دور میں مدارس کے نظام میں اصلاحات کی بات کی گئی تو دینی مدارس نے اسے مذہبی معاملات میں مداخلت اور مدارس پر حکومتی کنٹرول کی کوشش قرار دیا تاہم اکتوبر 2019ء میں بالآخر پاکستان تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے ماتحت کر دیا گیا، اْن کی رجسٹریشن کے لیے وفاقی محکمہ تعلیم کے تحت ایک نیا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا جس کا نام ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن رکھا گیا۔مولانا فضل الرحمان نے اُس وقت اِس کی خوب مخالفت کی لیکن نیا نظام رائج ہو گیا،جے یو آئی (ف) سے منسلک مدارس کے علاوہ کئی دیگر مدارس نے اسے قبول نہیں کیا اوررجسٹریشن بھی نہیں کروائی،اُن کو سوسائٹیز ایکٹ 1860ء کے تحت ہی مدارس کی رجسٹریشن کروانا مقصود تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب 26ویں آئینی ترمیم کی بات ہوئی تو اُس وقت مولانا نے اِس کی حمایت تو کی لیکن ساتھ ہی اپنے دو مطالبات بھی پیش کر دئیے، جن میں اسے ایک ملک سے سود کے نظام کا بتدریج خاتمہ اور دوسرا دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کی بجائے پرانے سوسائٹیز ایکٹ 1860ء کے ماتحت لانا تھا۔
اکتوبر میں جب یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظور ہو کر ایوان صدر پہنچا تو صدر آصف علی زرداری نے منظوری کے بغیر اور قانونی اعتراض کے ساتھ مدارس رجسٹریشن بل پہلے سپیکر قومی اسمبلی اور پھر وزیراعظم آفس واپس بھیج دیا۔ یہیں سے مولانا فضل الرحمان کا مزاج خراب ہو گیا، حکومت اور جے یو آئی کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے، خاصی گرما گرمی ہوئی، جے یو آئی ف کے چند رہنماؤں نے ’مطالبات کی منظوری کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ‘ کرنے کا اعلان کر دیاتاہم چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے دوران تعاون کی یقین دہانی کرائی، صدر زرداری سے بھی جے یو آئی ایف کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی، تفصیلی بات چیت ہوئی، اِس طرح یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو گیا۔ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات سب سے مؤثر اور بہترین طریقہ ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کا معاملہ بھی اسی طرز پر بخیر و خوبی حل کیا گیا تھا جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ مکالمہ ہی مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ یہی اصول ضلع کرم کے موجودہ مسائل پر بھی لاگو ہونا چاہیے، جہاں عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر مذاکرات کے ذریعے اُن مسائل کا حل تلاش کرے تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ناقدین خیبرپختونخوا حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ ِاس نے ابتداء میں معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے حالات بگڑ گئے لیکن اب صوبائی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے، اِس سے توقع کی جا رہی ہے کہ جلد ہی اِس تنازع کا مثبت اور پائیدار حل نکال لیا جائے گا۔اسی طرح حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان بھی بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے اگر نیک نیتی سے کام لیا جائے تو جلد یا بدیر خوشخبری آ سکتی ہے۔اہلِ سیاست کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ احتجاج، تشدد اور دنگے یا فساد سے معاملات حل نہیں ہوتے۔جمہوریت کا حسن تو یہی ہے کہ ایک میز پر بیٹھ کر بات چیت کر کے، کچھ اپنی سنا کر کچھ دوسرے کی سن کر، کچھ اپنی منوا کر کچھ دوسرے کی مان کر آگے بڑھا جائے۔عوام میں بھی اُمید کی کرن جاگے گی، رویے مثبت ہوں گے تو اداروں کے علاوہ اپنی قیادت پر بھی اعتماد بحال ہو گا۔