انٹرٹینمنٹ…… کل، آج اور پھر کل!
انٹرٹینمنٹ…… کل،آج اور پھر کل۔ مطلب یہ کہ جو طویل ماضی والا کل تھا جس کے بعد حال کا آج 31دسمبر کو ختم ہونے جا رہا ہے اور پھر آئندہ والا کل جو یکم جنوری کو شروع ہونے جا رہا ہے اس میں انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ہم نے جو وقت گزارا اس کا احوال۔ میں اس زندگی کی بات نہیں کر رہا جو بہرصورت گزرتی رہی ہے جس میں دنیا کو ایک پیکر خالی نظر آتا رہا جسے اظہر زمان سمجھا گیا لیکن یہ تو سب دھوکہ ہے کہ اس پردے کے پیچھے اصل شخص تو اس کی روح تھی جسے کم کم پہچانا گیا۔
یہ تمہید فلسفیانہ سی ہو گئی لیکن آپ نے پریشان نہیں ہونا کہ میں مضمون نہیں لکھ رہا، کالم لکھ رہا ہوں۔ چلو اگر کچھ فلسفہ بھی آ گیا تو وہ دلچسپ صورت میں ملے گا۔ خشکی اور بوریت درمیان میں آ گئی تو پھر میرا کمال کیا رہ جائے گا۔ میری تحریر ہوتی ہی آپ کی ”دل چسپی“ کے لئے ہے۔ یعنی میں اپنے الفاظ کے ذریعے آپ کے سامنے جو منظر نامہ رکھوں اس پر آپ کا دل چسپاں رہے اور دل چسپی کے لغوی معنی بھی یہی ہیں اور جس کالم کا عنوان ہی انٹرٹینمنٹ کے لفظ سے شروع ہوگا تو اس میں گارنٹی ہے کہ اس سے آپ کا دل جڑا رہے گا۔ ایسا نہ ہو تو پیسے واپس۔
اگر آپ کو پتہ چل گیا ہو کہ میرا موضوع کیاہے تو پھر اپنی زندگی میں انٹرٹیمنٹ کا اتنا سا احوال سناؤں گا جتنی اس مختصر سے کالم میں گنجائش ہے۔ معاف کیجئے، آگے بڑھنے سے پہلے پھر مجھے رک کر بتانا پڑے گا کہ انٹرٹیمنٹ کیا ہے؟ جن جن باتوں میں ہم گہری دلچسپی لے کر انجوائے کرتے ہیں وہ سب انٹرٹیمنٹ ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قہقہے، مسکراہٹیں، لطیفے، جگتیں اور مزاح ہی انٹرٹینمنٹ ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ سب انٹرٹیمنٹ ہے لیکن اس کے علاوہ بھی وہ سب کچھ ہے جو اپنی دلچسپی کے باعث آپ کو جکڑ لے۔ عام لوگ صرف مزاحیہ ڈرامے یا فلمیں نہیں دیکھتے۔ ورنہ ڈراؤنی ایکشن اور رلانے والے فیملی ڈرامے اور فلمیں اتنی کامیاب نہ ہوتیں۔ آپ کے دل پر گہرا اثر کرنے والے واقعات جن کے درد سے آپ کے آنسو نکل آئیں وہ بھی اپنی طرز کی انٹرٹینمنٹ ہے۔
اوکاڑہ میں ہائی سکول کے زمانے میں خصوصاً دوستوں کی ٹولی کے ساتھ شہر کی گلیوں اور آس پاس کے کھیتوں میں وقت کی پابندی سے آزاد آوارہ گردی تب سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ تھی۔ میونسپل کمیٹی کے سکول میں پرائمری تک ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھتے تھے جس کو اتنا انجوائے کرتے تھے کہ وہ مزہ چھٹی جماعت سے بنچوں پر بیٹھنے میں بھی بعد میں نہیں آیا۔ اوکاڑہ میں ڈاکٹر سلیم کے صاحبزادے جنید سلیم (اور ڈاکٹر عبدالغنی کے صاحبزادے سلمان غنی) جیسے میڈیا کے افراد کے ایک کزن لاہور سے ان سے ملنے آئے۔ ان سے خاندانی تعلقات کے باعث اس مہمان سے میرا بھی لگاؤ ہو گیا۔ میں تب پانچویں جماعت میں اپنے بہترین دوست جاوید کے ساتھ ٹاٹ پربیٹھا تھا کہ میں نے دیکھا کہ لاہور کا یہ مہمان لڑکا کمرے کی کھڑکی کے پار جنگلے سے لگا آنکھوں میں آنسو بھر کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں اچھل کر کھڑکی کے پاس پہنچا تو اس نے بہت اداسی سے بتایا کہ اسے اچانک واپس لاہور جانا پڑ گیا ہے اس لئے وہ میرے ساتھ الوداعی ملاقات کے لئے آیا ہے۔ میں نے ٹیچر کو یہ بتایا اور باہر جا کر اس سے ملنے کی درخواست کی جس نے مجھے ڈانٹ کر بٹھا دیا۔ میں واپس ٹاٹ پر آکر روتا رہا اور وہ مہمان لڑکا کھڑکی کے ساتھ لگا رو رہا تھا۔ میرا بہترین دوست جاوید بھی میری ہمدردی میں رونے لگا۔ بالآخر وہ مہمان لڑکا لاہور چلا گیا جس کا میں نام بھول گیا ہوں جو اس کے بعد آج تک مجھے نہیں ملا۔
پاکستان میں میری ایک عزیز بچی نے مجھے بتایا کہ ایک انکل ان کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے جس سے اس کا بہت لگاؤ تھا۔ جس دن مہمان انکل نے چلے جانا تھا وہ سکول کے لئے تیار ہو کر اسے جلدی جلدی ملنے آئی، اسے سکول سے بہت دیر ہو رہی تھی اس لئے اداس اداس سکول چلی گئی۔ سکول میں بریک ہوئی تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ کھلی گراؤنڈ میں جا کر جی بھر کر وہ آنسو بہائے جن کی صبح فرصت نہ ملی۔ اس کے بعد سکون سے کینٹین پر جا کر اس نے کچھ کھایا پیا اور سب کچھ معمول پر آ گیا۔
میں نے شاعری شروع کی تو درد کا بیان میرا پسندیدہ موضوع بن گیا جو شاید میرے اندر پہلے سے موجود تھا۔ میں نے اپنی شاعری کو چھپا چھپا کر رکھا لیکن بنگلور انڈیا میں میرے دانشور دوست راجیش جوشی کی بدولت میری شاعری دہلی کے ادبی اور ممبئی کے ثقافتی حلقوں میں جانی گئی اور مجھے ”شاعرِ درد“ کا خطاب ملا۔ میں دکھ درد کے شاعرانہ اظہار کو بہت پسند کرتا ہوں۔
تاہم میں اپنی گفتگو میں سنجیدہ ثقیل موضوعات سے بہت پرہیز کرتا ہوں۔ سکرین پلے کے انداز میں لمبی لمبی کہانیاں سنانے کا عادی ہوں۔ ہلکے پھلکے چٹکلے سنا کر اور سن کر خوش رہتا ہوں۔ زیادہ عمر والے لوگ جو سنجیدہ اور بورگفتگو کرتے ہیں ان میں ذرا دلچسپی نہیں لیتا۔ اسی لئے اپنے سے کم عمر کے زندہ دل لوگوں کی مجلس زیادہ انجوائے کرتا ہوں۔ فیملی اور فیملی کے باہر نوجوان افراد بہت خوش ہو کر میرے پاس بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور میں بھی ان کو مایوس نہیں کرتا۔ تین بیٹیوں کو پال کربڑا کرکے انہیں انٹرٹینمنٹ فراہم کرنے کا فن جان چکا ہوں۔ اس لئے خاندان کی جن بچیوں سے خصوصاً بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو ان کو خوش کرنے اور انٹرٹین کرنے کا میرے پاس بہت سامان ہے۔ ہلکی پھلکی پر لطف گفتگو کے ساتھ اپنی عادت کے مطابق انہیں غیر محسوس طریقے سے اچھی زندگی گزارنے کے آداب کا لیکچر دیتا رہتا ہوں۔
زندگی بجائے خود بنیادی طور پر ایک تکلیف دہ چیزہے لیکن اس کی رو میں بہنے کی بجائے اس میں گاہے گاہے انٹرٹینمنٹ کا پیچ ورک کرتے رہنا چاہیے۔ کل، آج اور آنے والے کل میں میری یہی پالیسی رہی ہے اور رہے گی۔ اسی باعث زندگی کے اس موڑ پر فکر فاقوں سے آزاد ہشاش بشاش اور صحتمند ہو کرکھڑا ہوں۔