جادو کی چھڑی نہیں قانون کی چھڑی گم ہے
نجانے جادو کی چھڑی کہاں گم ہو گئی ہے، خداجھوٹ نہ بلوائے تو میں پچھلی پانچ دہائیوں سے اس جادو کی چھڑی کا ذکر سن رہا ہوں۔ ہمیشہ یہی کہا گیا ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں، اگر یہ کسی کے پاس نہیں تو آخر ہے کہاں۔ بڑے بڑے جادوگر آئے مگر یہ جادو کی چھڑی تلاش نہیں کر سکے۔ بھٹو نے بھی اس جادو کی چھڑی کا ذکر کیا تھا اور ضیاء الحق بھی اپنے ہاتھ میں چھڑی رکھنے کے باوجود یہی کہتے تھے ملک کے حالات بہتر ہونے میں وقت لگے گا۔ ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ بات چلتے چلتے آج وہاں تک آ گئی ہے جب 2025ء شروع ہونے والا ہے۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔ کل وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے پھر اس جادو کی چھڑی کے گم جانے کا ذکر کیا تو یاد آیا اس چھڑی نے بڑے بڑے کو خجل خوار کیا ہے۔ نامی گرامی وزرائے خزانہ اس کے ہاتھوں دھوکے پہ دھوکا کھا کے زخم سہلاتے رہے ہیں۔ قوم کو بہترین گولی کھلانے کا سب سے موثر نسخہ بھی یہی ہے کہ انہیں کہہ دیا جائے ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں۔ حالات بہتر ہونے میں وقت لگے گا۔ مسئلہ یہ ہے جادو کی چھڑی کے بغیر کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کوئی ٹائم فریم آج تک نہیں دیا گیا۔ ہمارے ساتھ بلکہ بعد میں آزاد ہونے والے ممالک خوش قسمت تھے کہ انہیں جادو کی چھڑی مل گئی اور وہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی حوالوں سے آگے بڑھ گئے۔ ہماری یہ چھڑی ایسی کھوئی کہ آج تک اس کا سراغ نہیں مل رہا، ایک دن شیدے ریڑھی والے نے پوچھا یہ جادو کی چھڑی ہے کیا اور کرتی کیا ہے۔ پھر کہنے لگا ہم تو الٰہ دین کے چراغ کا سنتے آ رہے ہیں۔ وہ مل جائے اور اسے رگڑا جائے تو جن آ جاتا ہے جو ہر کام کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ کیا جادو کی چھڑی اس سے بھی کوئی بڑی چیز ہے اسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی یہ اصلی نہیں محاوراتی چھڑی ہے، جس کامطلب یہ ہے کہ راتوں رات حالات کو بدل دینا لیکن آج تک کسی کو یہ جادو کی چھڑی ملی نہیں۔ شیدے کو یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی، کہنے لگا اگر کسی ملک کے پاس جادو کی چھڑی نہ ہو تو کیاوہ بھی ترقی کر جاتا ہے۔ میں نے کہا جن ملکوں نے ترقی کی ہے، ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں تھی، انہوں نے اپنی محنت، مستقل مزاجی، دیانت داری، شفافیت اور مضبوط نظام کو تشکیل دے کر کامیابی حاصل کی۔ ان کے نزدیک جادو کی چھڑی انہی چیزوں کا نام ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ یہ تمام باتیں ناپید ہین، اس لئے ہمیں کسی جادو کی چھڑی کا انتظار رہتا ہے۔ شیدے کو بات سمجھانا آسان نہیں ہوتا اور جادو کی چھڑی کا معاملہ تو ویسے بھی بڑا پیچیدہ ہے جس چھڑی کی گمشدگی کا سن کر نسلیں جوان ہو گئی ہوں اور بزرگ نسلیں دنیا سے چلی گئی ہوں گی، اسے کوئی آسانی سے کیسے تلاش کر سکتا ہے۔ یہ ملک اللہ کے سہارے چل رہا ہے، ہمارے رہنماؤں، اسٹیبلشمنٹ اور اصلی جادوگروں نے کبھی یہ چاہا ہی نہیں کہ پاکستان مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوجائے، وہ اسے اسی حالت میں رکھنا چاہتے ہیں کہ حالات کو سدھارنے کے لئے کسی جادو کی چھڑی کا ذکر ہوتا رہے۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس ملک کو جادو کی چھڑی نہیں بلکہ قانون کے ڈنڈے کی ضرورت ہے۔ اصل طاقت یہ ہے جو گم ہو چکی ہے۔ قانون کے ڈنڈے کی بجائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، والی لاٹھی ہمارے پاس رہ گئی ہے، اسے چلائے جا رہے ہیں اور ملک کو اس دائرے میں گھمائے جا رہے ہیں جس نے ہمیں ہر لحاظ سے کولہو کابیل بنا دیا ہے۔ ہماری آنکھوں پربڑے بڑے کھوپے چڑھا کر ستر برسوں سے ایک ہی دائرے میں گھمایاجا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ نئے لوگ نئے کردار بھی سامنے آ جاتے ہیں مگر بیانیہ وہی پرانا رہتا ہے۔ موجودہ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب بیرون ملک سے بلائے گئے اورسینیٹر بنا کے انہیں وزیر بنا دیاگیا۔ حیرت ہے کہ جدید ترقی یافتہ دنیا میں رہنے کے باوجود وہ پاکستان واپس آکر جادو کی چھڑی کا ذکر کررہے ہیں۔ یہ بات بھی ان کی ٹھیک ہے کہ ملک خیرات نہیں ٹیکسز سے چلتے ہیں مگر سوال تو یہی ہے کہ وہ کوئی ایسی جادو کی چھڑی رکھتے ہی نہیں جو طاقتور طبقوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کر سکے۔ ابھی چند ہی روز پہلے انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا، ملک کا صرف پانچ فیصد پرمشتمل امیر طبقہ 16کھرب روپے کی ٹیکس چوری کرتا ہے۔ اب جادو کی چھڑی تو اس کے لئے درکار ہے ان ٹیکس چوروں کو پکڑا جائے اور کوئی اس میں رکاوٹ نہ بنے تو ملک کے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وزیرخزانہ بلکہ پوری حکومت کو ایسی جادو کی چھڑی مل ہی نہیں سکتی جو اس کھرب پتی مافیا پر چلے سکے۔ حقیقت یہ ہے جادو کی چھڑی گم بھی اسی مافیا کی وجہ سے ہوئی ہے۔جہاں قانون کو بے اثر کرنے والا طبقہ اتنا طاقتور ہو جائے کہ قانون اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونے پر مجبور ہو، وہاں کون سی جادو کی چھڑی اپنا کام دکھا سکتی ہے۔ ہمیشہ عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل کے یہی کہا جاتا ہے حالات بدلنے میں دیر لگے گی کیونکہ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ عوام یہ کہتے کب ہیں کہ جادو کی چھڑی سے راتوں رات دودھ کی نہریں بہاد ی جائیں وہ تو اس بات کو ترستے ہیں کہ کوئی ایک قدم تو ان کی مشکلات حل کرنے کی طرف اٹھایا جائے۔ یہ ترقیء معکوس کبھی تو ختم ہو، جس نے پاکستان کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان بیس تیس برسوں میں اچھے بھلے امیربھی غریب ہو گئے ہیں۔ اخراجات بڑھتے رہے آمدنی میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوا، ایسے میں غربت گھیرے نہ تو کیا کرے۔ حکومتیں آتی ہیں چلی جاتی ہیں۔ کوئی یہ نہیں کر پائی کہ براہ راست ٹیکس وصولی کا نظام مضبوط کرے۔ آج وزیرخزانہ کہتے ہیں سیلری کلاس پر مزید ٹیکس ناممکن ہے۔ انہیں یہ تو نظر آ گیا مگر وہ لوگ نظر نہیں آتے اربوں کماتے ہیں اور براہ راست ٹیکس نہیں دیتے۔ ان پر جادو کی چھڑی اثر نہیں کرتی، ڈنڈا ہی ان پر اثر کر سکتا ہے۔
اب ایسے میں جب یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اڑان پاکستان اقتصادی پروگرام کرنے جا رہے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے حکومت جادو کی چھڑی کے بغیر ہی اب آگے بڑھنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ یہ پروگرام 2025ء سے 2027ء پر محیط ہو گا۔ حکومت برآمدات 60ارب ڈالر تک بڑھائے گی۔ آئی ٹی کے شعبے میں انصاف لاکر اس کی برآمدات سے ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت کو یقینی بنایا جا سکے گا واہ جی واہ کیا دل خوش کن باتیں ہیں، انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے اس پانچ سالہ منصوبے کے لئے جادو کی چھڑی کاانتظام کیا جا چکا ہے۔ کیا اس ٹوٹے پھوٹے نظام پر کھڑی معیشت کو اتنی تیزی سے اوپر لے جایا جا سکتا ہے۔ اس نظام کے اندر اتنی جونکیں لگی ہوئی ہیں کہ اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر چکی ہیں جب تک ان جونکوں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا کوئی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے۔