تنگ آمد بجنگ آمد 

تنگ آمد بجنگ آمد 
تنگ آمد بجنگ آمد 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

پاکستان کی بزنس کمیونٹی مہنگی بجلی سے نپٹتے نپٹتے ہوش و حواس گم کرتی جا رہی ہے،کیونکہ بجلی کے مہنگے بلوں کے سبب ان کی پیداواری لاگت چوپٹ ہو چکی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔ملک کے بڑے بڑے صنعتکاروں اور کاروباری افراد کے لئے اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنا اور اس کے نتیجے میں عوام کو روزگار کی فراہمی یقینی بنائے رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ایک چوتھائی انڈسٹری پر پہلے ہی تالے پڑ چکے ہیں، کیونکہ حکومت پاکستان دو ہزار ارب روپے سالانہ 24 کروڑ عوام کی جیبوں سے نکال کر کپیسٹی چارجز کے نام پر آئی پی پیز کے حوالے کر دیتی ہے، خواہ وہ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف ایسوسی ایشن (ایف پی سی سی آئی) کے پلیٹ فارم سے مجھے برسر اقتدار یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے سرپرست اعلیٰ کے طور پر روزانہ پاکستان بھر کے مختلف چیمبروں، ٹریڈ ایسوسی ایشنوں اور انفرادی کاروباری شخصیات کی جانب سے تھوک کے حساب سے ٹیلی فون کالز موصول ہوتی ہیں۔ سب کو ایک ہی تشویش لاحق ہے کہ وہ بجلی کے ناقابل ِ برداشت ٹیرف میں آئے روز اضافے کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں اور ان کے پاس اپنے کاروباری سرگرمیوں کو معطل کرنے، ملوں اور فیکٹریوں کو تالے لگانے اور محنتی کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کر دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

چنانچہ ایف پی سی سی آئی کی قیادت کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھے اور آئی پی پیز کے ہاتھوں ملک کی جو شامت آ چکی ہے اس کے خلاف کلمہ ئ  حق ادا کرتے ہوئے حقائق سے آگاہی کا فریضہ سر انجام دے۔ ایف پی سی سی آئی کی پوری لیڈرشپ، یو بی جی کے سرپرست اعلیٰ کے طور پر میں خود اور ایف پی سی آئی کے گروپ لیڈر ڈاکٹر گوہر اعجاز نے گزشتہ دو ہفتوں میں اس حوالے سے کھل کر بات کی ہے تاکہ عوام، حکمران اور پالیسی ساز ادارے جان سکیں کہ پانی سر سے گزر چکا ہے اور پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھنا ممکن نہیں جب تک کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) یعنی نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے غیر منطقی معاہدوں کو ختم نہیں کیا جاتا اور ترجیحات کا ازسرنو تعین نہیں کیا جاتا۔

آج ملک کا بچہ بچہ سوال پوچھ رہا ہے کہ ان آئی پی پیز کو کتنی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں اور آیا وہ اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق بجلی بنا بھی رہی ہیں یا نہیں۔ کپیسِٹی پیمنٹ یعنی ان نجی بجلی گھروں کو ادائیگیوں کا معاملہ نیا نہیں۔ نیپرا کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 90 آئی پی پیز ہیں اور ہر ماہ بجلی کے بل میں کل استعمال کیے گئے یونٹ کے علاوہ انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ چارجز بھی شامل ہوتے ہیں۔

کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لئے کی جاتی ہے تاکہ بجلی کی اضافی مانگ کی صورت میں مہیا کی جا سکے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر سردیوں میں بجلی کی مانگ 10 ہزار میگا واٹ ہے، جبکہ گرمیوں میں یہ بڑھ کر 20 ہزار تک پہنچ جائے تو ایسی صورت میں حکومت کو پورے سال 20 ہزار میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھنی پڑے گی تاکہ بوقت ِ ضرورت بجلی کی مانگ پوری کی جا سکے، لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا، کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں ہے تو ایسے وقت ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لئے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر 2015ء میں بجلی کی کھپت اوسطاً 13 ہزار میگاواٹ تھی جبکہ کل پیداواری صلاحیت 20 ہزار تھی جس کے لئے 200 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی جا رہی تھی۔ آج 2024ء میں بجلی کی مانگ کی اوسط 13 ہزار میگاواٹ ہی ہے تاہم اس دوران پیداوار بڑھ کر 43 ہزار سے بھی زیادہ پر آگئی ہے، جس میں 23 ہزار 400 میگاواٹ کے نئے آئی پی پیز شامل ہیں۔ پیداواری صلاحیت میں اضافے کے باعث کپیسٹی پیمنٹ 10 گنا بڑھ کر دو ہزار ارب روپے پر پہنچ چکی ہے۔

اِس وقت ملک بھر میں 52 فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت جبکہ بقایا 48 فیصد میں نجی اور سی پیک کے تحت چلنے والے پلانٹس شامل ہیں۔حکومت ایک آئی پی پی سے 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے جب کہ آئی پی پیز کو کل دو ہزار ارب سالانہ کی ادئیگیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت کو بجلی کی فی یونٹ قیمت تقریباً 35 روپے پڑتی ہے، جس میں 10 روپے 60 پیسے فیول کے اور 24 روپے کپیسٹی چارجز شامل ہیں۔ تقسیم کار کمپنیاں یہ بجلی صارفین کو 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بیچ رہی ہیں اس کے باوجود حکومت کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستان بھر کی بزنس کمیونٹی کی ٹھوس رائے ہے کہ حکومت معاشی بدحالی پر قابو پانے کے کھوکھلے دعوے کرنے کی بجائے حقائق سے چشم پوشی کی روش ترک کرے اور آئی پی پیز کی نالش لے۔ ایک فعال معیشت کسی بھی ملک کی شہ رگ ہوتی ہے، جس سے خوشحالی، آسودگی اور امن کے سوتے پھوٹتے ہیں،جہاں معاشی سرگرمیاں معطل ہو جائیں وہاں انارکی کا راج ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج ملکی شہ رگ کو آئی پی پیز نے اپنے آہنی ہاتھوں سے دبوچ رکھا ہے اور حکومت ان کے خلاف ریاستی گارنٹی کا عذر پیش کر کے کاروائی کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ میرے خیال میں ایک ایسے وقت میں جب ملک بھر کی بزنس کمیونٹی اور عوام ان زور زبردستی کے معاہدوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، حکومت کو آگے بڑھ کر ان آئی پی پیز سے کیے گئے نامعقول معاہدوں پر ازسرنو گفت و شنید کرنی چاہئے تاکہ اس معاشی غنڈہ گردی کو ختم کیا جا سکے اور وطن عزیز کے معاشی میدان میں آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہئ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

مزید :

رائے -کالم -