پولیس اور عوام میں دوریاں کیوں؟؟؟

  پولیس اور عوام میں دوریاں کیوں؟؟؟
  پولیس اور عوام میں دوریاں کیوں؟؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یونس باٹھ

 میں ایک پولیس والا ہوں۔میں پولیس کے جونیئر رینک سے تعلق رکھتا ہوں۔ لیکن ایک پولیس مین سے پہلے میں ایک پکا سچا مسلمان بھی ہوں جو کہ اسی عوام سے ہوں۔میں ایک ایسی سوسائٹی سے تعلق رکھتا ہوں جہاں پر چوری، ڈکیتی، قتل وغارت، اغواء ، زناء  ، جواء، فراڈ، دھوکہ دہی اور ایسے بہت سے دیگر جرائم عام ہیں میں نے جب پولیس جوائن کی تو میں نے پختہ ارادہ کیا کہ میں اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سوسائٹی میں پائے جانیوالے جرائم کیخلاف خلوص دل کیساتھ جہاد کرونگا۔ معاشرہ کو جرائم اور دیگر برائیوں سے پاک کرونگا۔ مظلوم کیساتھ کھڑا ہونگا اور ظالم کو سزا دلواونگا۔ لیکن کئی سال کی سروس گزرنے کے بعد بھی میں پورے طور پر جرائم کا خاتمہ نہ کر پایا اور نہ ہی عوام کو صحیح طور پر انصاف دلوا پایا۔مجھ میں اور عوام میں ہمیشہ ایک بد اعتمادی کی خلیج حائل رہی اور مجھ پہ عوام نے بہت کم اعتماد کیا۔ جس کا نتیجہ یوں ہوا کہ دن بدن ایک پولیس والے کی حیثیت سے میں عوام کی نظروں میں گرتا چلا گیا۔ جس میں سب سے اہم کردار میرے ملک کے میڈیا نے ادا کیا۔ جس نے میرے اور عوام کے درمیان پیار کو فروغ نہ دیا بلکہ ریٹنگ کی آڑ میں ایک اہم ادارے کو ہمیشہ پولیس سے متعلقہ خبروں کو متنازع بنا کے پیش کیا اور مجھ سے میری عوام کو دور کرتا چلا گیا۔میں بہت کم وسائل اور تنخواہ کیساتھ چوبیس گھنٹے اپنا فرض نبھا رہا ہوں۔ میری جیب میں پیسے نہ ہوں تو میں اپنا فرض نہیں نبھا سکتا۔ میں ایمانداری سے اپنا فرض نبھانا چاہتا ہوں لیکن حالات مجھے ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں پر میرا ضمیر اور مجبوریاں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں اور اکثر میری مجبوریاں جیت جاتی ہیں۔عوام کو میں برا تو لگتا ہوں لیکن میری عوام کو میری مجبوریوں کا ادراک نہیں ہے۔ میں خود چاہتا ہوں کہ ڈیڑھ صدی پرانا پولیس کا ظالمانہ فرسودہ نظام تبدیل ہو جس کا شکار میں خود ہوں۔ میں کن حالات میں اپنا فرض نبھا رہا ہوں یہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔ میں ان مسائل اور مجبوریوں کی طرف نشاندہی کرنے لگا ہوں کیا میری عوام میرے حالات بدلنے کیلئے میرے ساتھ کھڑی ہو گی؟؟؟مجھے اپنی ڈیوٹی نبھانے کیلئے قدم قدم پر اپنی جیب سے پیسے لگانے پڑتے ہیں۔ اگر میرے پاس پیسے نہ ہوں تو میں ڈیوٹی کرنے میں فیل ہو جاؤں۔مجھے ڈیوٹی کے بعد بھی تھانہ حاضر رہنے کا حکم ملتا ہے۔ تھانہ میں ریسٹ کیلئے کوئی کمرہ اور واش روم نہیں ہوتا۔ جس سے میں فیملی سے دور ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتا ہوں۔اکثر دور دراز تعیناتی کے دوران تھانوں میں کمرے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے تھانہ کے آس پاس اپنی محدود تنخواہ سے رہائش کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔میرے کھانے پینے کیلئے تھانہ میں نہ سامان ہوتا ہے اور نہ ہی لیٹنے کیلئے کوئی چارپائی جو مجھے خود بندوبست کرنا ہوتی ہے میں ساری زندگی ریٹائرمنٹ تک دن رات ڈیوٹی کرتا رہتا ہوں۔ مجھے ویکلی، ماہانہ، سالانہ یا سرکاری طور پر کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔غمی ہو خوشی ہو، میرے گھر کوئی فوتگی ہو یا شادی ہو۔ مجھے چھٹی کیلئے کئی کئی دن ذلیل ہونا پڑتا ہے اور چھٹی ملنے کے چانسز بہت کم ہوتے ہیں۔ عید، شب رات پرجب سب لوگ اپنی فیملیوں میں ہوتے ہیں تو میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی خوشی کے لمحات اپنی فیملی میں گزاروں لیکن ان دنوں میری ڈیوٹی پہلے سے بھی دگنی اور سخت کر دی جاتی ہے۔اکثر گشت کے دوران گاڑی کا پٹرول ختم ہوجاتا ہے جو مجھے اپنی جیب سے پورا کرنا ہوتا ہے یا کسی کو کہنا پڑتا ہے مجھے جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کیلئے اکثر دور کے علاقوں میں جانے کیلئے پٹرول ڈلوانا پڑتا ہے جو میں خود ڈلواتا ہوں یا مدعی کا ترلہ کرنا پڑتا ہے۔اگر تھانہ کی پولیس وین خراب ہو جائے تو مجھے علاقہ میں کسی چوہدری کو درخواست کرنی پڑتی ہے کہ وہ کام کروا دے۔مجھے آئے دن لاہور ہائی کورٹ پیشی پہ جانا پڑتا ہے جو اپنے خرچے پہ میرے لئے مینج کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔کسی ملزم کیخلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد اسکی تفتیش کے سارے اخراجات میں خود اپنی جیب سے مینج کرتا ہوں جو میرے لئے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ میری محدود سٹیشنری کاغذ وغیرہ ختم ہو جائیں۔ یا آفس کا کمپیوٹر پرنٹر خراب ہو جائے تو مجھے خود ٹھیک کروانا پڑتا ہے۔میں جب چالان پراسیکیوشن برانچ جمع کروانے جاتا ہوں تو وہاں کے کلرک مجھ سے فی مقدمہ کے حساب سے رشوت طلب کرتے ہیں۔ جو میرے لئے بڑی سر درد ہوتی ہے۔مجھ سے عدالتوں میں بھی پیشی کے دوران وہاں کا عملہ رشوت لیتا ہے۔اکثر میری لمبی ڈیوٹی کسی ایسی جگہ لگ جاتی ہے جہاں کھانے پینے کا بندوبست ہوتا ہے نہ رہائش کا نہ ہی میرا محکمہ پرسان حال ہوتا ہے تو میں اللّٰہ کے بھروسے ایسی جگہ اپنی ڈیوٹی پوری کرتا ہوں۔میں کسی جرائم پیشہ کو پکڑ کے تھانہ لے آؤں تو مجھ سے پہلے پچاس لوگ اسکی سفارش کیلئے پہنچے ہونگے جو مجھے میرے فرض سے روکنے کیلئے نہ صرف انڈر پریشر کرتے ہیں بلکہ وردی اتروانے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔میری نظروں کے سامنے کسی بیگناہ پر ظلم ہو رہا ہو میں ظالم کیخلاف ایکشن لوں تو میں معطل کر کے پولیس لائن بھیج دیا جاتا ہوں۔اکثر جرائم پیشہ لوگ اتنے طاقت ور ہیں کہ میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کروں تو الٹا مجھ پر ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہے۔ اور حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔اگر میں ناکہ پر یا ڈاکوؤں کیساتھ دوران مقابلہ شہید ہو جاؤں تو میرا محکمہ اس بحث میں پڑ جاتا ہے کہ میں شہید ڈکلیئر کیا جاؤں یا نہیں۔میں بھی کسی ماں کا بیٹا، کسی بہن کا بھائی اور معصوم بچوں کاباپ ہوتا ہوں۔ عوام کی حفاظت میں مقابلہ میں شہید ہو جاؤں تو میرا میڈیا مجھے خبروں میں جاں بحق لکھتا ہے اور میرے گھر میری فیملی کے پاس افسوس اور کوریج کیلئے بھی نہیں جاتا۔میری عوام اکثر میرے برے رویے کی شکایت کرتی ہے لیکن بہت دفعہ ایسا ہوا ہے میں جب اپنا ایمانداری سے فرض نبھا رہا ہوتا ہوں تو عوام مجھ سے بدتمیزی بھی کرتی ہے اور وردی بھی پھاڑ دیتی ہے۔میرے مسائل حل کرنے کی بجائے اکثر میرے افسران آئے دن چھوٹی سی چھوٹی بات پر سزا دیتے رہتے ہیں جس سے مجھ میں احسن طریقے سے اپنا فرض نبھانے کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔میں ان کٹھن حالات میں ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہوں جس سے میں ہمیشہ پریشان اور ذہنی خلفشار کا شکار رہتا ہوں جس سے نہ صرف عوام مجھ سے دور ہے بلکہ میں خود انصاف کا منتظر ہوں۔ آئیے میرے ہم وطنوں یہ سسٹم بدلنے میں میرا ساتھ دیں تا کہ ہم دونوں ملکر جرائم کا خاتمہ کریں اور ملکر پیار محبت کو فروغ دیں۔

مزید :

رائے -کالم -