ہم نے تو کوئی دیکھنے والا نہیں دیکھا ۔۔۔
اک عقل کے بیمار نے کیا کیا نہیں دیکھا
ہم نے تو کوئی دیکھنے والا نہیں دیکھا
خوابیدہ نگاہوں کے سبب آپ نے اب تک
اجڑی ہوئی تہذیب کا حلیہ نہیں دیکھا
آنکھوں کو امر بیل ہے زنجیر تھکن کی
مدت سے ترے گاؤں کا میلہ نہیں دیکھا
دل میں کسی لیلیٰ کی سواری نہیں اتری
اس قیس نے اب تک کوئی صحرا نہیں دیکھا
چھوڑ آئے ہو تم حلقۂ اعداء میں رعایا
اس دیس میں بزدل کوئی تم سا نہیں دیکھا
منزل پہ پہنچ کر بھی اکیلا ہی رہوں گا
رستے میں کوئی نقش کف پا نہیں دیکھا
معذور ہے وہ آنکھ نمو خیز نظر سے
جس آنکھ نے عاشور کا سجدہ نہیں دیکھا
پھر تم پہ نہ کھل پائے گی یہ تعزیہ داری
گھر لوٹتا گر تم نے جنازہ نہیں دیکھا
کیا کچھ نہ گزرتا رہا ٹوٹے ہوئے دل پر
ملبے میں دبی آہ نے کیا کیا نہیں دیکھا
عباس کی آنکھوں پہ بہت سوچنے والو ۔ !
کیا جوش میں آیا ہوا دریا نہیں دیکھا ؟
کلام :حیدر عباس