اچانک جرائم کی شرح میں اضافہ اور وجوہات

رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر ماہِ صیام کے دوران مساجد میں افطاری اور سحری کے اوقات میں پولیس کی ڈیوٹیوں کے اوقات بھی بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ ہر سال اس مقدس مہینے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بظاہر ایسے دیکھائی دیتا ہے جیسے شہر بھر میں ڈاکو راج پورے آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں مسلح ڈکیتی کی وارداتوں کے ساتھ سحر و افطار کے اوقات میں چور گروہ،گھروں کے سامنے کھڑی قیمتی گاڑیاں اور ان میں نصب جدید پینلزاور دیگرسامان چوری کرکے آسانی سے فرار بھی ہو جاتے ہیں۔ دن دیہاڑے ڈاکو لوٹ مارکی وارداتوں کے دوران مزاحمت کرنے پرفائرنگ کرکے نہ صرف معصوم شہریوں کو زخمی کردیتے ہیں، بلکہ ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اسی طرح کا ایک ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہفتہ کی شام چوہنگ میں بھی پیش آیاہے جہاں موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے ایک کانسٹیبل قربان کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کرکے قتل کردیا ڈاکو اس کی موٹر سائیکل،موبائل فون سمیت نقدی وغیرہ جو بھی اس کے پاس تھا لوٹ کرلے گئے۔واقعہ کا مقدمہ مقتول کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے، مقدمہ میں قتل اور ڈکیتی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔مقتول کے والد فرذند علی نے روزنامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مقتول ایک اکلوتے شیر خوار بچے کا والد تھا چھ سات سال قبل اس کی شادی کی تھی جسے میں اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتا تھا ڈاکوؤں نے اس کی جان لے کر میری اور اس کے بیوی بچے کی دنیا ہی اجھاڑ دی ہے۔ یوں تو شہر بھر میں جرائم کے حوالے سے روزانہ واقعات پیش آتے ہی رہتے ہیں لیکن چوہنگ میں اس سے قبل بھی ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھاکہ ایک ماہ قبل پانچ بچیوں کے باپ 40 سالہ وکیل کو بھی موٹر سائیکل سوار شوٹرز نے فائرنگ کرکے اس وقت گھر کی دہلیز پر قتل کردیا جب وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑ کر گھر کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ موٹر سائیکل سوار شوٹرز نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ لاہور جوکہ آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں جرائم کی شرح پر قابو پا نا آسان نہیں ہے تاہم اس کے باوجود لاہور پولیس نے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کی قیادت میں بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کرتے ہوئے جرائم کی شرح میں حقیقی معنوں میں کمی کرکے دیکھائی تھی اور اس کے لیے لاہور پولیس کی پوری ٹیم ڈی آئی جی عمران کشور،ڈی آئی جی فیصل کامران،ڈی آئی جی سید زیشان رضا، شہر بھر کے تمام ایس پیز، ایس ڈی پی اوز نے بھر پور کردار ادا کیا۔ لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کی بہتر کوارڈی نیشن کی بدولت شہر میں سرگرم جرائم پیشہ افراد،شوٹرز اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث گینگز کا صفایا کردیا گیا جس سے ڈاکو اور شوٹرز لاہور سے بھاگ جانے پر مجبور ہوئے اور جرائم کی شرح میں بھی واضح کمی آگئی مگر پنجاب حکومت نے لاہور پولیس کے سب سے کامیاب ونگ آرگنائزڈ کرائم یونٹ جس نے شہر میں چیلنج سمجھے جانے والے مقدمات کو نہ صرف ٹریس کیا بلکہ ڈاکوؤں،شوٹرز کا خاتمہ کرکے ریکارڈ یکوریاں بھی متاثرین کو دلوائی ہیں اس کا خاتمہ کرکے لاہور پولیس کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی منظوری کے بعد لاہور میں کام کرنے والے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے 1860 پولیس افسران واہلکاران کو بے اختیار کرکے دفاتر میں بٹھا نے سے بھی شہر میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔