لاہور پولیس کا مقدمات کے اندراج کیلئے نیا عزم
پولیس کا فرض ہے مددآپ کی۔یہ نعرہ تو آپ نے ضرور سنا ہو گا؟، مگر اس نعرے کی حقیقت بھی ہمارے سیاسی لیڈروں کے دعووں جیسی ہی ہے۔ہمارے محکمہ پولیس کا اس نعرے سے عملاََ دوردورتک کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ پولیس کا سب سے بڑا فرض جرائم پر قابو پانا اور امن و مان قائم رکھنا ہے،مگر ہمارے پولیس حکام جرائم پر قابو پانے اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کی بجائے صرف دلفریب نعروں سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے اور جرائم کو چھپاکر،مقدمات درج نہ کرنے اور بلندوبانگ دعوے کر کے اپنی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔پولیس نے جرائم کی شرح پر قابو پانے کا آسان حل تلاش کر لیا ہے کہ سنگین مقدمات کا اندراج ہی نہ کیا جائے۔ ڈاکووں کی واردوتیں دیکھیں تو لگتا ہے ملک بھر بالخصو ص پنجاب کے بڑے شہر ”ڈاکو راج“کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔شاہد ہی کوئی فیملی ہو جو ڈاکووں کا شکار نہ بنی ہو۔لوگ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ہر وقت دل میں کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اب کے اب لٹے۔یہ صورتحال انتہائی تشویشناک سہی مگراس سے بھی ا فسوسناک رویہ ہماری پولیس کا ہے۔ پولیس ڈاکووں کے ہاتھوں لٹنے والے شہری کی بات تک نہیں سنتی کیونکہ اس سے متعلقہ پولیس کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔ پولیس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ درج نہ کیا جائے۔متاثرہ شہری کو ٹرخا دیا جاتا ہے یا پھر تھانے کے اتنے چکر لگو ا ئے جاتے ہیں کہ متاثرہ شہری خوار ہو کر مقدمہ درج کرانے سے توبہ کر لے،لیکن اگر سفارش یا پھر ڈھیٹ قسم کے شہری سے جان نہ چھوٹے تو پولیس کی طرف سے لاکھوں کی واردا ت پر چند ہزار کے نقصان کا اور ڈ کیتی کی بجائے چوری یا جرم میں تخفیف کر کے مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔پولیس اغواء برائے تاوان کا مقدمہ درج کرنے سے ہمیشہ گریزاں نظر آ تی ہے جبکہ بچوں اور خواتین کے اغواء پر مقدمہ درج کرنے کی بجائے صرف گمشدگی کی رپٹ درج کر کے معاملہ نپٹا دیتی ہے۔صوبہ بھر میں بے شمارایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کی بروقت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں سانحات کا سامنا کرنا پڑا،اگر پولیس روایتی بے حسی کی بجائے بر وقت ایکشن لے لے تو ان واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے، مگر پو لیس حکام کے نزدیک جرائم کو چھپاکراورمقدمات درج نہ کر کے اپنی کارکردگی پیش کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔پولیس کی اس روش کی وجہ سے مجرمان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور پو لیس کی گرفت سے بچنے کے علاوہ ان کے حوصلے بھی بلند ہو رہے ہیں اور اس وجہ سے آج صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بھر میں قتل و غارت گری، ڈکیتی،چوری، خواتین و بچوں سے زیاد تی،گینگ ریپ،اغواء اور اغواء برائے تاوان سمیت سنگین جرائم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیاہے،مگر پولیس حکام کی جادوگری ملاحظہ فرمائیں کہ پولیس حکام کی طر ف سے وزیر اعلیٰ کو جو ڈیٹا بھجوایا جاتا ہے وہ اکثر اعدادو شمار کے حوالے سے درست نہیں ہوتا۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے لاہور میں پیش آنیوالے ایسے واقعات کی ر و ک تھام کیلئے متعدد ایس ایچ او صا حبان کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے برطرف بھی کیا ہے اگر صوبہ بھر میں اس طرح کی کارروائیاں شروع کردی جائیں تو ان و اقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
لاہور پولیس کے آپریشنل کمانڈر نے مقدمات کے اندراج کے سلسلہ میں مروجہ قانون کے مطابق کارروائی نہ کرنے پر ماتحت افسران کیساتھ سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تما م ایس ایچ اوز کو ہدایت کی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے آئے دن دھرنوں سے ستائی عوام کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے تھانے آنیوالے ہرسائل کی درخواست پر فوری کارروائی عمل میں لائی جائے،ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت اگر کوئی شہری قابل دست اندازی جرم کا مقدمہ درج کرانے کیلئے تھانہ میں جائے تو ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر پابند ہے کہ وہ بلا توقف مقدمہ درج کر کے ایف آئی آر کی نقل مدعی کے حوالے کرے اور تفتیشی افسر فوری طور پر تفتیش کیلئے جائے وقوعہ پر روانہ ہو گا تاہم اگر شکایت کے مندرجات مشکوک ہوں تو پولیس افسر 24.4 پولیس رولز کے تحت شکایت کی انکوائری کر کے مقدمہ کے اندراج کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ایسا مقد مہ درج ہونے کی صورت میں پولیس افسر ایف آئی آر کے مقررہ خانہ نمبر 5 میں درج کریگا کہ مقدمہ انکوائری کے بعد درج ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے پنجاب پولیس درج ہونیوالے کل مقدمات میں سے 80 فیصد انکوائری کے بعد درج کرتی ہے لیکن ایسے مقدمات کے اندراج کے وقت مقررہ خانہ میں یہ قطعاً درج نہیں کیا جاتا مقدمہ بعد انکوائری درج ہوا بلکہ تحریر کیا جاتا ہے کہ بلاتوقف درج ہوا۔ پنجاب میں پولیس ا فسر مشکوک شکایت کی انکوائری کیلئے 24.4 پولیس رولز کی بجائے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 157(2) کا سہارا لیتے ہیں جو سراسر غیرقانونی طریقہ ہے کیونکہ 157(2) ض۔ف کے مطابق پولیس افسر مشکوک شکا یت کی انکوائری نہیں کر سکتا بلکہ مقدمہ درج کرنے کا پابند ہے تاہم اسے اس دفعہ کے تحت رعایت دی گئی ہے وہ مقدمہ درج کرنے کے فوراً بعد تفتیش کیلئے موقع پر پہنچنے کا پابند نہیں۔ صوبہ بھر کے زیادہ تر سی پی اوز ا ور ڈی پی او صاحبان نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 ہوا میں اڑا کر رکھ دی ہے اور ضابطہ فوجداری کی اس دفعہ کے مقابلہ میں اپنی قانون سازی کر رکھی ہے۔ یوں ملکی قانون کے مقابلہ میں پنجاب پولیس کا ایک اپنا خودساختہ قانونی نظام ہے۔ اعلیٰ پولیس افسران نے اپنے ماتحت ایس ایچ اوز کو حکم دے رکھا ہے زیردفعات 354, 406, 408, 420, 447, 448, 452, 468, 471, 489F, 506 ت۔پ اور ا یسے کئی دوسرے مقدمات متعلقہ ایس پی آپریشنز کی اجازت کے بغیر درج نہیں ہونگے۔ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے لاہور پولیس کے تمام افسران کو سختی سے ہدایات جاری کی ہیں کہ سائل کی جانب سے تھانے میں آ نیوالی ہرقسم کی در خوا ست پر بلا تاخیر کارروائی عمل میں لائیں۔ اس طرح کے احکامات پہلی دفعہ کسی بھی پولیس آفیسر کی جانب سے سامنے آئے ہیں جو قابل ستائش ہیں۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کو چا ہیے وہ صوبہ بھر کے تمام افسران کو اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے احکامات جاری کریں تاکہ عوام کو تھانوں میں ہونیوالی خجل خواری سے بچایا جاسکے۔