بہاؤ چیخ رہے ہیں تڑپ رہے ہیں بھنور۔۔۔
بس ایک آخری جینے کی آس چھوڑ گیا
جو اس کے نام ہے منسوب سانس چھوڑ گیا
فراتِ حسن کو وہ بد حواس چھوڑ گیا
جنوں پسند تھا صحرا میں پیاس چھوڑ گیا
سنا ہے اس کو ستاتی ہے رونقِ محفل
وہ اک مکین جو گھر کو اداس چھوڑ گیا
ادب کے نام پہ شاعر جدید لہجے کا
سماعتوں میں غزل بے لباس چھوڑ گیا
سفر میں دھوپ کے سورج نے یوں فریب دیا
ہمیں ہمارے ہی سائے کے پاس چھوڑ گیا
بنے گئے ہیں حسیں خواب نوکِ مژگاں پر
کسان آنکھ میں اب کے کپاس چھوڑ گیا
بلندیوں پہ تھا وہ میرے ساتھ چڑھتے ہوئے
ڈھلان اترتے ہوئے نا سپاس چھوڑ گیا
بہاؤ چیخ رہے ہیں تڑپ رہے ہیں بھنور
ندی میں کون یہ منظر اداس چھوڑ گیا
ادب برائے تفنن کا بادہ کش اشہر
سخن کی میز پہ جوٹھے گلاس چھوڑ گیا
کلام :نوشاد اشہر اعظمی(بلریا گنج اعظم گڑھ، بھارت )