حقوق نہیں دے سکتے نا دو لیکن کسی کی زندگی برباد مت کرو
تحریر :عمر سلطان حسین
بیوی کوگالی نہیں دی جاتی
میری تحریر کو پڑھ کر ایک بہن نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہنے لگی آپ کہتے ہیں کہ شوہر جو کہتا رہے اللہ کی رضا کے لیۓ خاموشی سے سنو،
میں اپنے خاوند کی ہر بدتمیزی اور گالیوں کو مکمل خاموشی سے برداشت کرتی ہوں، لیکن مجھ سے میری ماں پر گالی برداشت نہیں ہوتی۔۔۔!!!
میری ماں کو اس دنیا سے گۓ 5 سال ہوگۓ ہیں اور میرے شوہر میرے سامنے میری ماں کو "طوائف" کہتے ہیں میرا کلیجہ پھٹ جاتا ہے، 8 مہینے پہلے ماں کو یہ لفظ کہنے پر شوہر سے بدتمیزی کی آج 8 مہینے بعد بھی شوہر نے مجھ سے بات چیت بند کر رکھی ہے،
کیا اسلامی احکامات صرف عورتوں کے لیۓ ہیں کہ خاموش رہو، درگزر کرو، برداشت کرو۔
شوہر سے کوئی پوچھ نہیں ہونی، کیا سارے عذاب صرف بیویوں کے لیۓ ہیں؟؟؟
بہن کی ان باتوں نے آنکھیں نم کر ڈالیں، مزید کہنے لگی کہ میرے خاوند کو میری ماں سے یہ گلہ ہے کہ بڑے داماد کو جہیز میں بائیک دیدی اور مجھے نہیں دی، حالانکہ جب بڑی بہن کی شادی ہوئی اس وقت حالات بہتر تھے لیکن پھر بابا کا انتقال ہوگیا، میری ماں نے قرض لیکر میری شادی کی لہٰذا زیادہ سامان نہ دے سکی۔۔۔!!!
آپ کی تحریر کے اندر لکھا تھا کہ ایک شوہر سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن بیوی کی اونچی آواز شوہر سے برداشت نہیں ہوتی
اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بیوی سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن اسکے گھر والوں کو برا بھلا کہنا یہ برداشت سے باہر ہوگا بالخصوص ماں اور باپ۔۔۔!!!
آپ لوگوں نے سنا تو ہوگا ہی کہ کسی کی "آہ" نہیں لینی چاہیے، یہ آہ کا کانسیپٹ صرف ماں باپ یا یتیم مسکین بچوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہر اس شخص کے ساتھ ہے کہ جس کا دل دکھایا گیا ہو، اسکے اندر محرم، غیر محرم، تمام رشتہ دار، دوست و اقارب اور تمام دنیا کے لوگ شامل ہیں۔۔۔!!!!
سارے اعمال کپڑے میں لپیٹ کر منہ پر ماردیۓ جائیں گے، جواب ملے گا کہ پہلے اس شخص سے معافی لیکر آؤ جس کا دنیا میں دل دکھایا تھا، جو آنکھ دنیا میں تمہاری وجہ سے روئی تھی،
ذرا ایک بار ہم سوچ لیں کہ اگر بیوی نے وہاں معاف کرنے سے انکار کردیا تو ہمارا کیا ہوگا ؟؟؟
وہ اپنا گھر چھوڑ کر آئی، صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا، رات کا کھانا اسکی ذمہ داری، کپڑے دھونا استری کرنا اسکی زمہ داری، گھر کی صفائی جھاڑو پونچھا اسکی کی ذمہ داری، بچے سنبھالنا، بچوں کی پرورش اسکی ذمہ داری، ساس کا یہ کام، سسر کا وہ کام۔
وہ یہ سب کرتی ہے اور اسکے باوجود اسے اور اسکے گھر والوں کو گالیاں دینا، سب کے سامنے تذلیل کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، اُسے گالیاں نا دو، بدسلوکی نا کرو، تم اللہ کے بندے ہو وہ بھی اللہ ہی کی بندی ہے اور اللہ سب دیکھ رہا ہے۔۔۔!!!
ہمارے مولانا صاحب کا ایک جملہ جو وہ اکثر اپنے بیانات میں فرماتے ہیں کہ اگر حقوق نہیں دے سکتے نا دو تو پھر روزے رکھو لیکن کسی کی بچی کی زندگی برباد مت کرو۔۔۔!!!
شوہر تو محافظ ہوتا ہے، اور جب محافظ ہی بیویوں کو گالیاں نکالنا شروع کردے تو پھر اس گھر میں کوئی خیر نہیں.
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں