پولیس میں بڑھتے افسوسناک واقعات کا ذمہ دار کون 

  پولیس میں بڑھتے افسوسناک واقعات کا ذمہ دار کون 
  پولیس میں بڑھتے افسوسناک واقعات کا ذمہ دار کون 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

منگل اور بدھ کی درمیانی شب مریدکے ضلع شیخوپورہ میں ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں سی آئی اے کے سب انسپکٹر سمیت دو افراد جاں بحق ہو گئے، جبکہ گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہو گیا۔ جاں بحق ہونے والے سب انسپکٹر مراتب علی سی آئی اے آرگنائزڈ کرائم یونٹ لاہور ہیڈکوارٹر میں تعینات تھے۔ وہ اپنے دوست ذکاء کے ہمراہ شیخوپورہ جا رہے تھے کہ مریدکے جی ٹی روڈ کے قریب ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی گئی۔معلوم ہوا کہ انوسٹی گیشن لاہور پولیس کے دو اہلکار ارسلان اور امجد جو کہ انوسٹی گیشن بادامی باغ کے کانسٹیبل ہیں انہیں ان کے مخبر خاص نے ایک اشتہاری ارسلان کی اطلاع دی تھی جسے وہ پکڑنے گئے ارسلان نامی یہ ملذم سب انسکٹر مراتب علی جٹ کی گاڑی میں موجود تھا درمیانی شب اچانک سے شیخوپورہ پورہ روڈ مرید کے ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوجاتی ہے،گاڑی کے ڈرائیور نے جان بچانے کے لیے رفتار بڑھا دی، تاہم گاڑی بے قابو ہو کر کھمبے سے جا ٹکرائی۔ حادثے کے نتیجے میں سب انسپکٹر مراتب علی اور ان کے دوست ذکاء_ موقع پر ہی دم توڑ گئے، جبکہ شدید زخمی ڈرائیور کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔جبکہ اس گاڑی میں موجود اشتہاری ارسلان بھی ذخمی ہو گیا۔ابتدا ء میں پتہ چلاکہ یہ واقعہ نامعلوم ملذمان کی فائرنگ کے بعد پیش آیا ہے بعداذاں پتہ چلا کہ نہیں یہ فائرنگ جو بادامی باغ سے انوسٹی گیشن کے دو کانسٹیبل اشتہاری کو پکڑنے آئے تھے ان کی فائرنگ کے بعد پیش آیا ہے اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک سب انسپکٹر اور اس کے دوست کی موت کی خبر نیوز چینل پر نشر ہونے پر افسران بالا میں تھرتھلی مچ گئی جاں بحق ہونے والے سب انسپکٹر مراتب علی اور اس کے دوست ذکااللہ کی لاشیں تو مردہ خانہ بھجوادی گئی تھیں گزشتہ روز دوپہر بارہ بجے تک لاہور پولیس اور شیخوپورہ پولیس ملزمان کے بارے میں بالکل بے خبر رہی تاہم بادامی باغ انوسٹی گیشن کے اہلکاروں کے نام دونوں اضلاع کی پولیس کے سامنے آنے کے بعد ان کی گرفتاری دونوں بالخصوص لاہور پولیس کے لیے چیلنج بن گئی تھی۔لاہور انوسٹی گیشن پولیس کے ایس ایس پی محمد نوید نے روز نامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دونوں اہلکار خود آکر شامل تفیش ہو گئے ہیں اور ان کی اب تک کی تفتیش کے مطابق ان اہلکاروں نے مرنے والے سب انسپکٹر مراتب علی کی گاڑی پر فائر نگ نہیں کی اور ان کی موت حادثے کی وجہ سے ہوئی ہے۔تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ یہ کسی مخبر کی اطلاع پر اشتہاری ارسلان کو پکڑنے گئے تھے۔ایس او پی کے مطابق ان کا وہاں جانا قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ان کے ساتھ کوئی تھانیدار موجود نہیں تھا اور ان اہلکاروں نے اپنے کسی سینئر کو بھی اعتماد میں نہیں لیا اس طرح کی کارروائی اکثر طمعہ نفسانی کے لالچ میں سامنے آتی ہے کہ اشتہاری کو پکڑ کر دیہاڑی لگالیں گے تاہم اس بارے میں بھی تفتیش جاری ہے کہ اصل حقائق کیا ہیں ایس ایس پی محمد نوید نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ اہلکار دو نہیں تین تھے اور ان کیساتھ ایک پرائیویٹ شخص بھی موجود تھا یہ چاروں ان کے پاس پیش ہو چکے ہیں جبکہ مخبر خاص کا شامل تفتیش ہو نا باقی ہے۔ اس کے سامنے آنے پر اصل حقائق کا پتہ چل جائیگا دوسری جانب ایس ایس پی انوسٹی گیشن شیخوپورہ رانا غلام عباس نے روزنامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سب انسپکٹر مراتب علی اور اس کے دوست ذکااللہ کی پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی موت حادثے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے تاہم ان کی گاڑی پر تین فائر بھی لگے ہیں۔ رانا غلام عباس کے مطابق انویسٹی گیشن لاہور پولیس کے اہلکار جس اشتہاری کو گرفتار کرنا چاہتے تھے وہ اسی گاڑی میں موجود تھا اوراشتہاری ارسلان بھی زخمی ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل ہے دونوں پولیس اہلکاروں نے مخبر کی اطلاع پر ریکارڈ یافتہ ارسلان کو پکڑنے کی کوشش میں رات گئے سڑک پر ناکہ لگا رکھا تھا۔اس دوران گاڑی پر فائرنگ بھی ہوئی اور حادثہ بھی پیش آیا۔ رانا غلام عباس کے مطابق فائرنگ لاہور سے آنے والے اہلکاروں نے کی ہے یا کسی اور نے اس پر تفتیش جاری ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ متاثرہ گاڑی سے پاکستانی اور فارن کرنسی بھی ملی ہے اسے بھی چیک کیا جارہا ہے۔ کا نسٹیبل لیول کے اہلکاروں کی اس کارروائی نے دو اضلاع کی پولیس کو امتحان میں ڈال دیا ہے اس طرح کے واقعات پولیس کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔فیصل آباد حوالات میں تین سگے بھائیوں کا قتل دو بڑے افسران کی فراغت کا باعث بنا ہے اب دیکھتے ہیں یہ واقعہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔یہ ہی نہیں گذشتہ روز لاہورکے تھانہ رائے ونڈ میں بھی افسوسناک اور دلخراش واقعہ پیش آیا ہے جہاں پولیس کانسٹیبل نے ساتھیوں کیساتھ ملکر گھر میں گھس کر دو خواتین کو زبردستی بداخلاقی کا نشانہ بناڈالا اور ان کی برہنہ ویڈیوز بھی بنائیں،افسوسناک ترین پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ تھانہ رائے ونڈ کی چوکی بائی باس کے انچارج نے واقعہ کواعلی افسران سے چھپا ئے رکھا۔معاملہ میڈیا پر سامنے آنے کے بعد پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کرلیا اور جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے اسوقت تک واقعہ میں ملوث تین ملزمان ابوبکر، سہیل، ثقلین گرفتار کر لیے گئے ہیں،تاہم مرکزی ملزم پولیس اہلکار ارسلان اور عاطف گرفتار نہ ہوسکے ہیں۔ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے کہا کہ پولیس اہلکار اینٹی رائٹ فورس میں تعینات تھا،جسے فوری طور پر معطل کردیا گیا ہے اور اس کے خلاف محکمانہ انکوائری بھی شروع کردی گئی ہے جبکہ چوکی انچارج کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب نے خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے اور انہیں ہراساں کرنے پر ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے رکھا ہے لیکن جہاں اس عوام کے رکھوالے ہی عزتوں کی پامالی اور اپنے طمعہ نفسانی کی خاطر پولیس کے ایس او پی کا خیال رکھنا چھوڑ دیں۔ اس فورس سے آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اس معاشرے میں امن قائم کرسکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -