سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 50
سلطان نے کچھ کہنا چاہا لیکن آواز کو یارانہ رہا،دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا۔آنکھیں بند کر لیں اور حضوری قلب سے دعا مانگی۔
’’پروردگار مجھے اس آزمائش سے نجات دے۔اس متحان میں سرخ رو کر‘‘
پھر انہیں محسوس ہوا دماغ کی رگیں پھٹ جا ئیں گی۔انھوں نے اپنے پو رے جسم کی قوت سمیٹ کر تالی بجائی اورنڈھال ہو کر ہاتھ چھوڑ دیئے اور آنکھیں بند کر لیں۔حکم کا نتطار کرتے ہو ئے قدموں کی آواز سے دالان بھر گیا۔
ڈھلتے ہوئے جاڑوں کی کندنی دھوپ سنگِ سیاہ کے چمکیلے چبوترے پربچھی تھی جیسے کفتانوں کے زرد اطلس کے بہت سے تھان کھول کر پھیلا دیئے گئے ہوں۔آخر موسم کے دمشقی گلابوں کی تیز خوشبو ٹھنڈی خوشگوار ہوا کے پہلو سے لگی قبہ شاہی کے سامنے لرز رہی تھی۔مشرق سے شمال تک پھیلا ہوا سپینی محرابوں کا جنگل شکاری چیتوں،عقابوں،بازوں،شقاروں اور کبوتروں سے بھرا ہوا تھا۔خدمت گزاروں کا انبوہ سبز عمامے اور قبائیں پہنے امیرشکار کے حکم کا منتظر کھڑا تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عمارت کے تمام مطلیٰ دروں کے پردے بندھے ہوئے تھے۔عالموں کے ٹخنوں تک لمبی قبائیں اور بھاری عماموں کے کمر تک لٹکتے شملے مخملیں پاپوش اور امیروں کے زرکارکفتانوں،زرکارطرپوش کا مدارچومی موزے،مرصع نیاموں اور قصبوں کے آبدار ہتھیار سب خوابوں کی طرح خاموشی سے آرہے تھے اور سیڑھیوں سے چبوترے کے گوشوں تک اورمحرابوں کے قلب تک اپنے اپنے منصب اور مقام کے مطابق استادہ ہوتے جاتے تھے۔افسردہ چہروں،مغموم آنکھوں،لرزتے ہاتھ پیروں پر ایک غم تھا جو مسلط تھا۔جب کہیں تل رکھنے کی جگہ رہی اور حواس پر قابو ہوا تو غلاموں کا سہار لے سلطان المسلمین اٹھے اور تکیوں سے پشت لگائی۔شہزادہ عزیز نے اپنے فراغ سینے سے سر مبارکہ کو سہارا دیا۔دربار پر نگاہ کی۔اپنے ہاتھوں سے پیدا کی ہوئی عظیم الشان سلطنت کے اپنی رکاب میں ترتیب کئے ہوئے جلیل الشان امیروں اوروزیروں پر نظر پڑی تو کیسی کیسی یادیں تازہ ہو گئیں۔کیسے کیسے خونیں معر کے فتح کی مبارکہ یاددیتے سامنے گزر گئے۔کیسی کیسی یادگار اور تاریخ سازفتوحات سلام کرنے کو بازیاب ہوئیں۔آستین پرلگے ہوئے زردرومال سے آنکھیں خشک کیں۔ازلی گردن فرازوں اور پشتینی مغرور بادشاہوں کو سر نگوں کر ڈالنے والی آواز میں فرمایا۔
’’لو گو! ہم نے تم کو طلب کیا اس اعلان کیلئے کہ ہمارے تم پر جو حقوق ہیں وہ معاف ہوئے۔اگر ہم پر تمہارے کچھ حقوق باقی ہیں تو تسلیم کرتے ہیں۔۔اور وصیت کرتے ہیں کہ ہمارے بھائی اور بیٹے اور بھتیجے اس شفقت اور محبت کے صلے میں جو ہم نے ہمیشہ ان پر روارکھی ہے۔۔ہمارے سامنے یا ہمارے بعد تم کو ادا کر دیں۔
ہم نے خدا کی رحمت سے ایک سلطنت پیداکی اور سلطان کہلائے لیکن درحقیقت ہم خدا کی امانت اور تمھاری خدمت کے امین تھے۔آج یہ امانت اپنے پروردگار کو سونپتے ہیں اور وصیت کرتے ہیں کہ ہم اپنی طرف سے کسی کو اس سلطنت کا وارث قرار نہیں دیتے۔جس پر تمہیں اتفاق بادشاہ بنا لو‘‘
’’دین پناہ‘‘
ایک درد ناک آواز بلند ہوئی،ملک العادل نے اپنی کمر سے وہ تلوار کھولی جو سلطان اعظم نے اپنے ہاتھوں سے حطین کی فتح پر باندھی تھی اور سلطان کے قدموں میں رکھ دی اور غلاموں کی طرح ہاتھ باندھکر کھڑے ہو ئے اور روتی آواز میں بولے ۔
’’اب میں سلطنت ایوبی کا نائب السلطنت نہیں ہوں سلطان المسلمین !اس عظیم المرتبت انسان کا بھائی ہوں جس نے مجھے باپ کی طرح پالا اور بیٹوں کی طرح برتا ہے۔دین پناہ!خدا نہ کرے کہ ہماری زندگی میں ہم پر قیامت صغریٰ برپا ہو لیکن اگر لوحِ محفوظ میں یہی مرقوم ہے تو جس طرح عادل نے آپ کی رکاب میں تلوار ہلانے کو زندگی کی سب سے بڑی سعادت جانا ہے۔آپ کے علم کی شوکت کیلئے سر ہتھیلی پر رکھ کر دادِ شجاعت دی ہے۔اسی طرح رب العالمین کی قسم اسی طرح آپ کے جانشین کیلئے۔۔ شاہزادہ عزیز کیلئے تلوار ہلاتا رہے گا۔ان کی ایک جنبشِ ابروپر اپنی اولاد کی جان نچھاور کر دے گا۔‘‘
اور سلطان کے ہاتھ پر اپنی نم آنکھیں رکھ دیں۔سلطان کا دستِ شفقت ان کے طربوش پر لرزتا رہا،آنکھوں سے دو آنسو ڈھلک کر نورانی داڑھی میں کھو گئے۔حاضرین زمین پر آنکھیں گاڑے تصویروں کی مانند کھڑے تھے۔ہاتھ ہلا کر قاضی القضاۃ کو اپنے قریب بلایا۔قدموں میں رکھی ہوئی تلوار کی طرف اشارہ کرکے حکم دیا۔
’’یہ دمشق کی حفاظت ہے۔۔۔اور صرف عادل کو زیب دیتی ہے۔‘‘
قاضی القضاۃ نے دونوں ہاتھوں سے تلوار اٹھائی ۔ملک العادل سے کھڑے ہونے کی گزارش کی اور تلوار کمر بندھ دی۔
’’مفتی اعظم! یہ انگشتری نشان حکومت ہے ۔جس کا خطبہ پڑھا جائے اسی کے ہاتھ میں پہنا دی جائے ‘‘
سلطان نے اپنے ہاتھ ’’جبلِ نور‘‘سے آراستہ انگوٹھی اتار دی۔قاضی القضاۃ نے دونوں ہتھیلیوں کی کشتی میں سنبھال لیا اور ہاتھوں کوسینے تک بلند کئے کھڑے رہے۔
’’دمشق کا خزانہ ۔۔۔شاید دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے ،جو ہم پر حرام ہے۔ہماری ذاتی ملکیت میں سات درہم ہیں جو ہمارے سفر آخرت میں کام آئیں گے‘‘
’’سلطان المسلمین !‘‘
’’حطین کی لڑائی میں ہم نے جو کفن پہنا تھا۔جسے پہن کر ہم بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے۔اسی خون آلودہ کفن میں ہم کو دفن کیا جائے کہ اس کی برکت سے قبر کی مصیبت آسان ہو جائے گی۔
’’ہماری تلوار ہماری قبر میں رکھ دی جائے ‘‘
’’قیامت کے دن جب خدا مجھ سے حساب مانگے گا تو جواب دوں گا کہ اے پروردگار لوہے کے اس ٹکڑے کے صدقے میں جس نے بیت المقدس فتح کیااور تیرے محبوب کی امت کے حوالے کر دیا،میرے بے حساب گناہوں سے درگزر کر۔
’’یقین ہے کہ اس وسیلے سے بخشش نصیب ہو جائے گی ۔
’’وصیت ہے کہ جنازے کے ساتھ کو ئی بین نہیں کرے گا۔
کسی خطیب کو تقریر کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کسی شاعر کو مرثیہ پڑھنے کا حکم نہ ہو گا۔
قبر نیچی اورکچی بنائی جائے‘‘
ہونٹ کانپ کر رہ گئے اور تکیوں پر سر ڈال دیا۔طبیب خاص نے لپک کر نبض پر انگلیاں رکھ دیں۔آنکھیں کھولیں اور صاف الفاظ میں فرمایا۔
’’دوا نہیں دعا کرو۔۔۔کلامِ الیٰ سناؤ‘‘
بنو امیہ اور بنو عباس کے جاہ وجلال سے چشمک کرنے والے شہشاہ کا آخری دربار کھڑا تھا۔باب الداخلہ پر سارا دمشق’’محافظ اسلام‘‘کا دیدار حاصل کرنے کیلئے ٹھا ٹھیں مار رہاتھااور سینکڑوں ترکمانوں کے نیزوں کی نوک پر ٹھرا ہوا تھا۔(جاری ہے )
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں