شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 26
بہرحال جیسا کہ مجھے معلوم تھا ،تینوں آدم خور ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔لہٰذا جب بھی ان کا سامنا ہوتا،جلد جلدکم ازکم تین فائروں کی ضرورت پڑتی۔دو نالی رائفل سے جلد جلد تین فائر ممکن نہیں تھے ۔اس لیے میگزین رائفل لانا پڑی۔دلاور نے یہ عقل مندی ضرور کی کہ آتے وقت میری چار سو پچاس ایکسپریس لیتا آیا۔دلاور کے ہاتھ میں حسب معمول میری دو نالی بارہ بور بڑے شاٹ سے بھری ہوئی تھی ۔دلاور کے ساتھ ہوجانے سے اگرچہ ہتھیاروں کے معاملے میں تقویت ہوئی ،لیکن اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی مجھ پر عائد ہوگئی اور آدم خور وں کے مقابلے کی صورت میں یہ ذمہ داری نہ صرف باعث زحمت بلکہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔
آگے میں اور میرے پیچھے دلاور ۔۔۔ہم دونوں پوری احتیاط وہوشیاری کے ساتھ ہر جھاڑی ،پتھر اور گڑھے کا جائزہ لیتے ،آگے بڑھتے گئے ۔جنگل گھنا ضرور تھا ۔لیکن خزاں کا زمانہ ہونے کی وجہ سے پتیاں کم اور جھاڑیا ں خشک تھیں ،جن کے درمیان جانوروں کے گزرنے کی وجہ سے پگڈنڈیاں بن گئی تھیں ۔دونوں طرف پھیلی ہوئی کانٹے دار جھاڑیاں خشک ہونے کی وجہ سے دور تک صاف نظر آتا تھا ۔میں کئی چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر چڑھا اُترا کئی وادیاں طے کیں۔نالے ،عمیق غار ،اور گھنے جھنڈدیکھے،لیکن ان شیروں کے پرانے ماگھ کے علاوہ کوئی تازہ نشان نظر نہ آیا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوپہر سے ذرا پہلے ہم لوگ گاؤں سے پانچ چھ میل دور نکل آئے اور ایک چشمے کے کنارے پہنچے ۔یہاں درختوں کا سایہ بہت گہرا تھااور جس سمت سے ہم لوگ آئے تھے ،اس کے علاوہ تینو ں سمتوں میں گھنے درختوں ،جھاڑیوں اور جنگلی بیلوں نے دیواریں سی بنا رکھی تھیں ۔چشمے کا پانی بہت سرداور صاف تھا اور کناروں پر باریک ریت پھیلی ہوئی تھی۔
یہاں پہنچتے ہی مجھے خیال آیا کہ یہ مقام ان شیروں کے لیے بہت موزوں ہے۔کنارے کی ریت پر نظر پڑی تو جا بجاشیروں کے بیٹھنے اور ریت میں لوٹنے کے نشانات نظر آئے۔
میں نے دلاور کو ہدایت کی کہ بغور زمین کا جائزہ لے اور خود رائفل سنبھال کر کھڑا ہوگیا۔۔۔یہ کشادہ جگہ جہاں ہم لوگ تھے ،کوئی پچیس گز چوڑی اور پچاس ساٹھ گز طویل ہوگی۔اس مقام پر کچھ عجیب سی وحشت ناک اور پر اسرار خاموشی اور دہشت چھائی ہوئی تھی۔
ماگھ دیکھ کر دلاور نے اندازہ کیا کہ بعض نشانات بالکل تازہ ہیں ۔اس کا خیال تھا کہ ہم لوگوں کے وہاں آنے سے ذراقبل ہی تینوں شیر کنارے کی نرم وسرد ریت پر آرام کر رہے تھے ۔۔۔یا تو انھوں نے ہمیں دیکھ لیا یا آہٹ پالی اور اٹھ کرچل دیے۔نہ صرف یہ کہ ماگھ تازہ تھے بلکہ نشانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ شیر یہاں مستقل اٹھتے بیٹھتے ہیں۔معاً خیال آ یا کہ یقیناًیہ ان شیروں کی اقامت گاہ ہے ۔اس خیال کے ساتھ ہی میں نے اطراف کے درختوں ،پتھروں اور جھاڑیوں کا جائزہ لیا ۔۔۔یہاں کچھ ایسی کیفیت تھی کہ یہ خونخوار درندے کسی بھی جگہ پوشیدہ ہو سکتے تھے ۔ جھاڑیاں شاداب اور گھنی ، درختوں کا گہرا سایہ ،ٹھنڈک اور ویرانی ۔۔۔یہ جگہ شیروں کے لیے بہت موزوں تھی۔
میں نے اب درختوں کا دوبارہ جائزہ لیا۔۔۔اس دفعہ میں مچان باندھنے کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کر رہا تھا۔درخت تو چاروں طرف تھے ،لیکن اتنا بڑا اور تناور درخت کوئی نظر نہ آ یا ،جس پر مچان باندھی جاسکے ۔۔۔مجھے اس وقت خطرے کا ایسا کوئی احساس نہیں تھا جو عام طور سے خطرے کے وقت ہوتا ہے،لہٰذا میں دلاور کو ساتھ لے کر سیدھا آگے بڑھا چلا گیا۔اس قطعے کے مشرقی کنارے پر،جہاں سے چشمہ جھاڑیوں کے نیچے سے نکل کر کشادہ جگہ پر نمودار ہوا تھا ۔ذراشمال کی طرف ہٹ کر چودہ پندرہ فٹ اونچی ایک بڑی چٹان تھی ،جس پر ایک جنگلی بیل نے گھنا غلاف چڑھا رکھا تھا۔میں نے اس چٹان کے چاروں طرف گھوم کر اچھی طرح دیکھ بھال کی ۔چٹان کا عقبی حصہ نسبتاًزیادہ بلند تھا اور محیط دس بارہ گز سے کسی طرح کم نہ ہوگا۔بالائی حصہ بھی تین چار گز سے کم نہیں تھا۔
مشکل یہ تھی کہ اوپر چڑھنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔بیل کو کھینچ کر اندازہ کیا کہ اگر مضبوط ہو تو ان کو رسے کی طرح استعمال کر کے اوپر چڑھ جاؤں ۔لیکن بیل کمزور تھی ۔
قریب ہی جامن کا ایک درخت تھا اور اس کی ایک شاخ چٹان سے ایک گز کے فاصلے پر تھی ۔میں نے سوچا ، اگر میں درخت پر چڑھ کر سر کتا ہوا اس شاخ کے سرے تک آجاؤں تو وہاں سے اچھل کر چٹان پر جاسکتاہوں۔میرا ارادہ تھا کہ چٹان پر بیٹھنے اور بیلوں اور دوسری شاخوں کو ٹٹی کی طرح آڑ بنا لینے کے بعد شیروں کی آمد کا انتظار کروں ۔یہ بھی خیال تھا کہ کوئی شیر چودہ پندرہ فٹ اونچی جست نہیں کرسکتا اور اگر بفرض محال اتنی بلندی تک جست کر بھی لے تو چٹان پر اس کے تیز ناخنوں کے لیے کوئی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پھسل کر دوبارہ نیچے گر جانا یقینی بات ہے۔۔۔اورپھر چٹان تھی بھی کچھ بے ڈول ۔۔۔پوری چٹان کو اس انڈے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ،جسے ذرا ترچھا رکھ دیا گیا ہو۔
ایک مشکل یہ تھی کہ جامن کا درخت قابل اعتماد نہیں ہوتااس کی شاخیں کمزور ہوتی ہیں۔لیکن اس وقت میں نے اس امر پر قطعی غور نہیں کیا۔۔۔اور دلاور کو ساتھ لے کر حتّی الامکان تیزی سے گاؤں کی طرف واپس ہواتاکہ شب بسری کا سامان لا سکوں ۔بلکہ ایک بھینسا بھی لے آؤں۔
ہم لوگوں کو گاؤں جا کر واپس آنے میں خاصی دیر لگی ۔۔گاؤں کے کئی منچلے جوانوں نے میرے ساتھ جانے کی خواہش کی،لیکن میں نے ان کو روک دیا۔
دلاور میرے پیچھے بھینسے کی رسی پکڑے چلا آرہا تھا اور ہم نے اپنے کمبل،کافی کا تھرمس،پانی کی کُپّی ،ٹافیاں اور اسی قسم کی کئی کھانے والی خشک چیزوں کا جھولا،رسیاں،سب کچھ بھینسے پر ہی لاددیا تھا۔اس دفعہ شیروں کے مسکن تک پہنچنے میں بھینسے کی سست روی کی وجہ سے زیادہ دیر لگی اور ہم لوگ وہاں ساڑھے تین بجے پہنچے۔چٹان سے کوئی تیس گز کے فا صلے پرپانی کے کنارے سے ذرا پر ے ایک درخت کی جڑ میں بھینسے کا پیر رسے سے باندھ دیا۔اس کے بعد ہم لوگ چٹان کے پاس آئے اور اب چٹان پر چڑھنے کی مہم کا آغاز ہوا۔۔۔(جاری ہے )