حوالات میں بند تین بھائیوں کا قتل لمحہ فکریہ ؟

چھ جنوری کی صبح پانچ بجے کا وقت تھا کہ کم از کم آٹھ افراد ضلع فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کے تھانہ صدر میں داخل ہوئے اور حوالات میں قید تین بھائیوں عثمان، بلال اور ناصر کو فائرنگ کر کے قتل اور آصف نامی حوالاتی کو ز خمی کیا اور پھر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ہلاک ہونے والے بھائیوں پر تین افراد کو سرِعام قتل کرنے کا الزام تھا اور حال ہی میں تھانہ سٹی پولیس نے عدالت سے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا لیکن پھر تفتیش کے لیے انھیں تھانہ صدر کی حوالات میں منتقل کر دیا گیا تھا۔پولیس کے مطابق اس منتقلی کی وجہ بھی ان افراد کا تحفظ تھا کیونکہ خاندانی دشمنی کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا اور تھانہ صدر کی عمارت نسبتاً زیادہ محفوظ تھی۔ ان دونوں تھانوں کی عمارتیں ساتھ ساتھ ہیں۔ان تین بھائیوں کے قتل کے مقدمے کی ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی ہے اور اس کے مطابق جب ان پر حملہ ہوا تو حوالات میں قید ملزمان کی حفاظت پر صرف ایک سپاہی موجود تھا۔پولیس کے مطابق مسلح افراد نے جب تھانے کی دائیں حوالات کے سامنے پہنچ کر اس کے اندر اندھا دھند فائرنگ کی تو سنتری نے ان کو روکنے کی کوشش کی۔ایف آئی آر کے مطابق پانچ مسلح افراد نے جواب میں پولیس پر سیدھی فائرنگ کی تاہم سنتری نے ستون کی اوٹ لے کر ملزمان پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا جس پر وہ فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔پنجاب پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی انٹیلی جنس سپیشل برانچ فیصل علی راجہ کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو تاندلیانوالہ پہنچ کر معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے تاہم ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے اس تمام واقعے میں پولیس کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ہلاک ہونے والے تینوں افراد کی والدہ نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ کچھ لوگ پولیس تھانے کے اندر گھس کر میرے سوتے ہوئے بیٹوں کو قتل کر کے فرار ہو جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ مرنے والوں کی چچا زاد بہن نمرہ نے پولیس کی طرف سے از خود پولیس کی مدعیت میں اس واقعے کا مقدمہ درج کرنے پر بھی اعتراض اٹھایا ہے کہ وہ خود کیسے اس مقدمے کی مدعی بن سکتی ہے۔انھوں نے سوال اٹھایا کہ مسلح افراد اتنی بڑی تعداد میں کیسے تھانے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ حوالات کے پہرے پر صرف ایک پولیس سنتری ہی کیوں موجود تھا؟ حوالات کے اندر قتل کے اس واقعے کے حوالے سے بہت سے ایسے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کو پولیس نے قتل کے جس واقعے میں گرفتار کیا تھا وہ گزشتہ ماہ کے شروع میں پیش آیا اور اس کے کچھ روز بعد ہی ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ان کے خلاف اگر مقدمہ تھانہ سٹی میں درج تھا تو انھیں تھانہ صدر کی حوالات میں کیوں بند کیا گیا؟ اور پھر اس بات کا علم مسلح افراد کو کیسے ہوا؟ روزنامہ پاکستان نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلح افراد کون تھے اور تھانے کے اندر داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟ کیا پولیس کی طرف سے واقعی ان کو روکنے کی کوشش کی گئی؟اس واقعے کی ایک سی سی ٹی وی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے مختلف زاویوں میں مسلح افراد کو تھانے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے برعکس اس ویڈیو میں نظر آنے والے مسلح افراد کی تعداد پانچ نہیں آٹھ ہے۔ایک مقامی پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس واقعہ سے متعلق ان کی اس تھانے میں تعینات اپنے ساتھیوں سے بات ہوئی ہے۔ان کے مطابق دونوں تھانوں کی دیوار ایک ہی ہے۔ مسلح افراد تھانہ سٹی کی دیوار پھلانگ کر تھانہ صدر میں داخل ہوئے۔ وہ جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ تھانہ صدر کی حدود میں داخل ہوکر سب سے پہلے انھوں نے تفتیشی افسران کے کمروں کو باہر سے تالا لگایا۔جن کمروں میں پولیس کے ملازمین رہتے ہیں اور سرکاری اسلحہ پڑا ہوتا ہے ان کو بھی انھوں نے باہر سے تالا لگایا۔پولیس اہلکار کے مطابق ملزمان نے تھانے میں فائرنگ کی جس کے نتیجے میں محرر کے کمرے میں موجود ایک پولیس اہلکار اور تھانے کے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکار دونوں وہاں سے فرار ہو گئے۔اس کے بعد مسلح افراد نے حوالات کا رخ کیا اور قتل کے مقدمے میں گرفتار تینوں افراد کو شناخت کرنے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ حوالات میں موجود ایک اور ملزم زخمی ہوگیا۔پولیس اہلکار کے مطابق ملزمان یہ کارروائی کرنے کے بعد جائے حادثہ سے فرار ہوگئے۔ان تفصیلات اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح افراد کو تھانے کے اندر پولیس کی اہلکاروں کی موجودگی کی جگہوں کا پہلے سے علم تھا۔ ان کو یہ بھی علم تھا کہ تھانے کے صرف داخلی راستے پر کیمرے نصب ہیں۔باہر جاتے ہوئے ان میں زیادہ تر نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے یا چھپانے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سکھیرا برادری کے مرنے والے تین افراد اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ برس نومبر میں فائرنگ کر کے کھرل برادری کے دو افراد کو اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ عدالت سے ٍضمانت لے کر واپس آ رہے تھے۔ اس فائرنگ میں ایک راہگیر بھی ہلاک ہوا تھا۔تاہم پولیس نے کچھ ہی روز بعد ان تین بھائیوں اور ان کے چوتھے ساتھی کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس سال کے شروع میں ملزمان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے ان سے تفتیش کی جارہی تھی۔ دونوں گروپوں کا شمار علاقے کے بااثر افراد میں ہوتا ہے اور ان دونوں گروپوں کی آپس میں دشمنی گزشتہ تین سال قبل شروع ہوئی۔ ذرائع کے مطابق سکھیرا برادری کے افراد نے کھیتوں کو ٹیوب ویل کے ذریعے پانی دینے کی غرض سے ایک ٹرانسفارمر لگوایا۔ کھرل برادری نے ان سے تقاضا کیا کہ انھیں بھی ٹیوب ویل کے لیے بجلی اسی ٹرانسفارمر سے دی جائے تاہم سکھیرا برادری کے لوگوں نے انکار کردیا۔ نتیجے میں ان دونوں گروپوں کی آپس میں مخالفت پیدا ہوگئی۔ اس افسوس ناک واقعہ پر آئی جی پولیس نے سخت نوٹس لیتے ہوئے صوبہ بھر کے افسران سے ایک اجلاس میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایت کی ہے۔اس واقعہ کے انکوائری آفیسر ڈی آئی جی فیصل راجہ نے رپورٹ مرتب کرکے آئی جی پولیس کے حوالے کردی ہے جبکہ آرپی فیصل آباد ڈاکٹر عابد راجہ نے سنگین غفلت،لاپرواہی پر تین ایس ایچ اوز،مقدمے کے تفتیشی،دو محر ر اور دو اہلکار جو ملزمان کے رشتے دار تھے انہیں فوری طور پر معطل کردیا ہے۔