یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد کے سابق وائس چانسلر کا گورنر پنجاب کے نام کھلا خط

یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد کے سابق وائس چانسلر کا گورنر پنجاب کے ...
یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد کے سابق وائس چانسلر کا گورنر پنجاب کے نام کھلا خط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فیصل آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان کی جانب سے یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آبادمیں کی جانے والی 228 تقرریوں اور ترقیوں کو منسوخ کرنے کے حکم پر سابق وائس چانسلراقرار احمد خان نے گورنر پنجاب کو کھلا خط لکھ دیا ۔

اقرار احمد خان نے کہا ہےکہ گورنر پنجاب نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کی جانے والی 228 تقرریوں اور ترقیوں کو منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے، جس پر میڈیا نے یکطرفہ کہانی کو اجاگر کیا ہے۔ اس خط میں ان اہم حقائق کو عوامی سطح پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ گورنر اس فیصلے پر نظرثانی کریں۔ان کا کہنا تھا کہ گورنر کا حکم یہ تاثر دیتا ہے کہ وائس چانسلر نے 228 تقرریاں اشتہار کے بغیر کیں، حالانکہ قانون کے مطابق وائس چانسلر کے پاس گریڈ 17 سے 21 تک کی تقرریاں کرنے کا اختیار نہیں ہے اور کوئی باقاعدہ تدریسی تقرری اشتہار کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔

یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد کے سابق وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی میں ہر سال اسامیوں کا بجٹ فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی، سنڈیکیٹ اور سینیٹ کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے، جس کی صدارت گورنر یا ان کے نامزد نمائندے کرتے ہیں صرف بجٹ شدہ اسامیوں پر تقرری کی جا سکتی ہے۔ ایچ ای سی کے معیارات کے مطابق، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں 35000 طلبہ کے لیے کم از کم 1100 تدریسی ارکان کی ضرورت ہے، مگر اس وقت یونیورسٹی میں تقریباً 700 تدریسی ارکان ہیں۔ 2017 سے 2021 تک 50 تقرریاں اور ترقیوں کا عمل جاری رہا تھا، تاہم یہ کمی ابھی بھی محسوس کی جا رہی تھی اور اس کے نتیجے میں یونیورسٹی کے ارکان مایوسی کا شکار ہو گئے تھے۔

اقرار احمد خان کا کہنا تھا کہ اس خلا کو پورا کرنے کے لیے 2022 اور 2023 کے دوران اشتہارات دیے گئے تھے اور ہزاروں درخواستیں موصول ہوئیں۔ قانونی طور پر ہر امیدوار کی اہلیت کا تعین ایک ایک کرکے کیا جاتا ہے اور غیر مستحق امیدواروں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں اوسطاً ایک سال سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔یونیورسٹی میں 2023/2024 کے دوران 100 سے زیادہ سلیکشن بورڈ اجلاس ہوئے اور 500 سے زیادہ تقرریوں اور ترقیوں کی سفارشات سنڈیکیٹ کو بھیجی گئیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلیکشن بورڈ میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کا ایک رکن، تین معروف شخصیات اور ماہرین شامل ہیں، اور وائس چانسلر اس اجلاس کا صرف کنوینر ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی کوئی قانون یا پالیسی نہیں ہے جو وائس چانسلر کو اپنے عہدے کے آخری ماہ میں اجلاس کی صدارت کرنے سے روکے۔

انہوں نے کہا کہ گورنر کے حکم میں ایچ ای سی کے ایک خط کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں پانچ ترقیوں کی منظوری کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ایچ ای سی کے نمائندے نے ان اجلاسوں میں شرکت کی تھی اور کسی بھی اعتراض کا اظہار نہیں کیا تھا۔گورنر کے پاس یونیورسٹی ایکٹ کی دفعہ 11-A کے تحت نظرثانی کا اختیار ہے، لیکن یہ حکم اس قانون کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اس میں متاثرہ افراد کو ذاتی طور پر سننے کا موقع نہیں دیا گیا۔ گورنر نے 8 اکتوبر کو یونیورسٹی کے دورے کے دوران اس فیصلے کو کیوں نہیں جاری کیا؟ اور 21 اکتوبر کو اس نے کیوں ریکارڈ طلب کیا؟ ان تمام سوالات کا جواب غائب ہے۔میرے پاس اس بات کا ریکارڈ موجود ہے کہ گورنر ہاؤس نے 8 اکتوبر سے 19 اکتوبر تک 'خواہشات کی فہرستیں' بھیجی تھیں، جنہیں میرٹ کے مطابق رد کیا گیا تھا۔ گورنر ہاؤس نے 21 اکتوبر کو اچانک ریکارڈ طلب کیا اور جلدی سے حکم جاری کیا، جو دراصل وائس چانسلر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سزا دینے کا عمل تھا۔ اس عمل میں 228 اہل افراد کے کیریئرز تباہ کر دیے گئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گورنر کے اس اقدام نے سلیکشن بورڈز اور سنڈیکیٹ کے اعلیٰ ارکان کو بدنام کیا ہے، اور ان افراد کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے جنہوں نے قانون اور میرٹ کے مطابق فیصلے کیے۔ سابق گورنر (لیفٹیننٹ جنرل محمد اقبال) کا ایک حکم موجود ہے جس میں انہوں نے سلیکشن بورڈز کی جانچ پڑتال کو مسترد کر دیا تھا۔گورنر پنجاب کا یہ عمل سیاسی ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتا ہے، اور یونیورسٹیاں ان کے لیے آسان ہدف بن چکی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں چیف منسٹر پنجاب کی جانب سے 24 وائس چانسلرز کی تقرریوں کی منظوری دینے سے انکار کیا تھا اور ان تقرریوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔یونیورسٹی کمیونٹی میں اس حکم کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ گورنر کا حکم شفافیت اور قانون کی قوت سے عاری ہے اور متاثرہ افراد اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔