ہم ہیں کہ ابھی تک ڈرائیور کہنے پربضد ہیں، لوکوپائلٹ کہنے میں وہ لطف کہاں۔ بہر حال جس کا جو جی چاہے کہے، گاڑی تو چلا ہی رہے ہیں نا
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:4
بہر صورت وضع کردہ اس خاکے کی بنیاد پر اپنے ذاتی تجربات رقم کرنے کیساتھ ساتھ ریلوے سے متعلق مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی تحقیق بھی شروع کی جو وقت کے ساتھ شدید گہری ہوتی چلی گئی۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا تھا کہ میں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اوربہت زیادہ تفصیل میں جانے کا ارادہ ترک کردیا۔کیونکہ اس موضوع پر تو ایک چھوٹی سی کتاب نہیں بلکہ سیکڑوں ضخیم کتب بھی تحریر کردی جائیں تو حق ادا نہ ہو اور اس تحریر کا کیا فائدہ کہ اتنا کچھ پڑھنے کے باوجود قارئین کواپنے بنیادی سوالات کا جواب ہی نہ ملے اور ان کی تشنگی بھی باقی رہے۔ جتنے محاذوں پر میں ایک ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے جا رہا تھا اس سے پہلے شاید ہی کسی نے کوئی ایسا قدم اٹھایا ہو۔
غور و خوض کے بعد یہ طے پایا کہ نفس پروری کے زیر اثر اپنے قصے کہانیاں سنانے کے بجائے کیوں نہ اسے ایک ترتیب سے تحریر کیا جائے اور بیچ میں کہیں کہیں وہ اپنی آپ بیتیاں سنانے کی بھی گنجائش نکال لی جائے- جن کو سنانے کے لیے میں بڑا بے چین تھا۔ نتیجتاً ایک ایسی کتاب وجود میں آئی جس میں، میں نے بھاپ کے ابتدائی نسل کے بھدے اور بیہودہ انجن سے ایک تھکی ماندی چھکڑا سی گاڑی چلوا کر اسے دور جدید کی بغیر پہیوں والی میگلیو ٹرین تک پہنچا دیا۔
ریل گاڑی کے کسی بھی شعبے کی دقیق قسم کی تاریخی، جغرافیائی اورتکنیکی پیچیدگیوں میں جائے بنا ء ان معلومات کو سیدھی سادی زبان میں وہاں تک ہی محدود رکھا جہاں تک یہ ایک عام قاری کی سمجھ میں آ جائے۔ اس لیے جب بھی کہیں الجھاوْ والی تکنیکی یا عمومی معلومات سامنے آئیں، میں اس سے پہلوتہی کرکے چپ چاپ آگے نکل گیا۔ آخر ایک غیر متعلقہ شخص ریلوے جیسے وسیع موضوع پر کتنا کچھ لکھ سکتا ہے۔ پھر بھی جہاں کہیں ممکن ہوا ریلوے کے ہر محکمے کے بارے میں انتہائی ضروری اوربنیادی معلومات فراہم کر دی گئی ہیں۔اور زیادہ تر ریل گاڑی کو اِدھر اْدھر کے ممالک میں بھگانے کے بجائے اپنے ہی وطن کے ماحول اور معاشرے کی حدود و قیود میں رکھا ہے۔
کتاب کی تیاری کی خاطر مجھے کئی اجڑے ہوئے ویران اسٹیشنوں اور ٹوٹی پھوٹی پٹریوں کو بھی جا کر دیکھنا پڑا، جن کو میں نے جیتی جاگتی اور رواں دواں حالت میں دیکھا تھا اور یوں پاکستان میں ریلوے کی بربادی کی داستان بھی یہاں رقم ہوئی۔ کمزور اور جزوی طور پر تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے جو جان لیوا حادثات ہوتے رہے ہیں، ان کا ذکر بھی ایک تواتر سے کیا ہے۔ ریلوے کے ہر محکمے کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ اس انداز سے لیا ہے کہ اسے پڑھ کر کسی کا مزاج برہم نہ ہو اور اس عظیم مگر قریب المرگ ادارے کا نوحہ بھی لکھا جا سکے۔
کچھ مشکلات مجھے ریل کی اصطلاحات بیان کرتے ہوئے پیش آئیں لیکن میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میں کم از کم ایک بارصحیح صورت حال بیان کرکے ریلوے سے متعلقہ ان تمام اصطلاحات کو مشرف بہ وطن کرکے دیسی رنگ ہی میں رنگ دوں اور کتاب میں وہی الفاظ استعمال کروں جو یہاں رائج ہیں۔ اس کی چند مثالیں یوں ہیں:
انجن کا نام اب لوکوموٹیو ہوگیا ہے اوراسی مناسبت سے دنیا بھر میں ڈرائیور اب لوکو پائلٹ کہلاتے ہیں۔حتٰی کہ انگریز بھی اپنا ہی پڑھایا ہوا صدیوں پرانا سبق بھول گئے اور ریل کی اصطلاح سے ڈرائیورکا نام ہی نکال باہر پھینکا۔ ہندوستان بھلا کیوں کسی سے پیچھے رہتا اس نے بھی ڈرائیوروں کو فارغ کرکے اپنے ہاں لوکو پائلٹ ہی رکھ لیے ہیں۔ اور اگر امریکیوں کی جدتِ طبع کی بات کی جائے، تو ان کا نام رکھنے کا اپنا ہی ایک باغیانہ اور منفرد سا انداز ہے، وہاں ڈرائیورکو انجنیئر کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ ابھی تک انھیں ڈرائیور ہی کہنے پربضد ہیں، لوکوپائلٹ کہنے میں وہ لطف کہاں۔ بہر حال ہمیں کیا،جس کا جو جی چاہے کہے، وہ جو کوئی بھی ہیں، گاڑی تو چلا ہی رہے ہیں نا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔