ابا جی اور امی جی میں نوک جھوک بڑھ جاتی تو میں صلح کا پل بنتا، اپنے باپ سے اس قدر محبت تھی کہ زندگی بھر ان سے پیسے وغیرہ نہیں مانگ سکا

 ابا جی اور امی جی میں نوک جھوک بڑھ جاتی تو میں صلح کا پل بنتا، اپنے باپ سے اس ...
 ابا جی اور امی جی میں نوک جھوک بڑھ جاتی تو میں صلح کا پل بنتا، اپنے باپ سے اس قدر محبت تھی کہ زندگی بھر ان سے پیسے وغیرہ نہیں مانگ سکا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:45
 والدہ کا آپریشن؛
شور کوٹ میں ہی تھے تو امی جی کو پتے کی تکلیف ہو گئی۔ مقامی ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا۔ اس دور میں مقامی طور پر آپریشن کی سہولت موجود نہ تھی۔ جس کے لئے میو ہسپتال لاہور جانا تھا۔ یہ المیہ آج بھی ہے کہ ہمارے بہت سے شہروں میں کچھ بیماریوں کے علاج کی سہولت سرے سے میسر ہی نہیں۔ جس کے لئے آج بھی لاہور کا رخ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ مریض راستے میں ہی چل بستا ہے۔بدقسمتی ہے ہماری۔ امیر لوگ تو علاج کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں جبکہ غریب کے لئے اس ملک کے مقامی ہسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولتیں دستیاب ہی نہیں ہیں۔ والدہ کو لاہور بھیجا گیا۔ میری نانی اگلے روز شورکوٹ آئیں، بچوں کو ان کے پاس چھوڑا اور علی الصبح میں اور ابا جی ریل کے ذریعہ لاہور جانے کے لئے ریلوے سٹین پہنچے۔ مجھے ساتھ اس لئے لے جا رہے تھے کہ میری ابا جی سے شدید قسم کی attachment تھی اور والدکے بغیر میں بیمار ہو جاتاتھا۔ سردی کا موسم تھا اور ان دنوں سردی بھی خوب پڑتی تھی۔ ٹھنڈ سے مجھ پر کپکی طاری ہونے لگی۔ مجھے آج بھی کل کی طرح ہی یاد ہے کہ ابا جی نے اپنا کوٹ اتار کر مجھے اوڑھادیا اور گرم گرم چائے میں کیک رس ڈبو کر مجھے کھلانے لگے۔ میری کپکپی تو کم ہو گئی پر مجھے نہیں معلوم بغیر کوٹ کے ابا جی نے وہ سردی کیسے برداشت کی ہوگی۔ یہ ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو خود تکلیف برداشت کرکے بچوں کو ہر ممکن راحت دیتے ہیں۔ عجیب بات ہے اولاد جوان ہو کر ماں باپ کا ویسے خیال نہیں رکھ سکتی۔کیوں؟؟ ہم لاہورپہنچے جہاں ابا جی نے مجھے سب سے بڑی پھوپھو بلقیس کے پاس ان کے گھر سمن آباد چھوڑا اور خود میو ہسپتال چلے گئے۔ غالباً شام کو واپس آئے تھے۔ کچھ دن ہم لاہور رہے تھے۔ اس کے بعد کی بات میرے حافظے سے گم ہو چکی ہے۔
پینڈو کی شرمندگی؛
پہلی بار لاہور آ یا تو ابا جی میری والدہ کے سلے کپڑے لینے ”صوبے خاں ٹیلرز“(یہ اس دور میں لیڈیز کا لاہور کا سب سے مشہور اور مہنگا درزی تھا۔مال روڈ پر اس کی دوکان کے قریب ہی جوتوں کی دوکان تھی(یہ آج بھی ہے۔)میں دوکان میں داخل ہونے لگا تو اس کے بڑے بڑے شیشے اس قدر شفاف تھے کہ میرا سر ان سے ٹکرایا کہ سمجھا تھا کہ دروازہ کھلا تھا۔ شکر نہ تو میرا سر پھٹا اور نہ ہی شیشہ ٹوٹا۔ پینڈو۔
لاہور میں ہی تھے تو ایک روز اباجی کے سارے دوست انکل شاہ، انکل نجو، انکل یاسین، انکل بٹ، انکل جعفر، انکل ڈاکٹر اعجاز میر اور انکل ستار باغ جناح کے ”گلستان“ میں اکٹھے اپنے گزرے وقت کو یاد کرتے قہقہے بکھیر رہے تھے۔ میرے لئے انہوں نے آئس کریم کا ”پستہ“  فلیور منگوایا اور آج بھی یہی فلیور میرے پسندیدہ فلیورز میں سے ایک ہے۔ ابا جی اور امی جی میں کبھی نوک جھوک بڑھ جاتی تو میں ہی ان کے درمیان صلح کا پل تھا۔ تب تک ان کے بیچ سے نہ ہٹتا جب تک یہ پھر سے ہنسنے نہ لگتے تھے۔ یہ یادیں بھی کیا چیز ہیں لکھنے بیٹھا ہوں تو نہ جانے کن کن کونوں سے جھانکتی قلم کی نوک پر اترتی چلی جا رہی ہیں۔
میں اپنے والد کے ساتھ اپنی پھو پھی ”محمودہ“ کے گھر لائل پور آیا جہاں میرے پھو پھا این ڈی یوسف(نجم الدین یوسف) ڈین ایگرکلچر تھے۔چائے پر ہماری تواضع میں شامی کباب بھی شامل تھے۔ ان کے خانساں نے کبا بوں کی پلیٹ میرے آ گے کی تو میں نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ ہی پکڑ نا چاہی تو میری پھو پھی کہنے لگیں؛”ایک لے لو۔“ان کی آ واز کی کڑواہٹ میری شرمندگی سے زیادہ تھی۔ میں اپنے باپ کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا تھا حالانکہ اس دور کے ایسے خونی رشتوں پر پھو پھیاں جان واری کرتی تھیں۔ مجھے اپنے باپ سے اس قدر محبت تھی کہ میں زندگی بھر ان سے پیسے وغیرہ نہیں مانگ سکا۔مجھے بچپن سے ان کا بڑا خیال رہا۔یہی وجہ ہے کہ مجھے پیسے کا کبھی بھی لالچ نہ ہوا۔ ابا جی جو بھی پیسے دیتے انہی میں گزارا کرتا تھا۔ کبھی زیادہ پیسوں کی ضرورت بھی پڑ ہی جاتی تو مجھے ان سے پیسے مانگنا اچھا نہ لگتا تھا۔ امی جی سے مانگ لیتا تھا۔ گو ایسے مواقع کم ہی آئے ہوں گے۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -